ہفتہ،15  جمادی الاوّل 1444،10 دسمبر2022ء 


گزشتہ روز کرپشن کا عالمی دن منایا گیا۔ 
دنیا بھر میں ہر سال کوئی نہ کوئی دن منایا جاتا ہے اور دن منانے کا مقصد تجدید عہد کرنا ہوتا ہے تاکہ اس میں بہتری لائی جا سکے ۔ مگر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ تمام دن منانے کے باوجود دنیا پراس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ اب کرپشن کو ہی دیکھ لیں۔ اس دن کو مناتے ہوئے عرصہ گزر چکا ہے اور اس روز جو عزم باندھا جاتا ہے کیا اس پر آج تک کہیں عملدرآمد ہوتا نظر آیا، ہرگز نہیں۔ افسوسناک امر تو یہ ہے کہ کرپشن کا خاتمہ تو کجا‘ اس میں اضافہ ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ عزم تو یہی کیا جاتا ہے کہ کرپٹ مافیا کیخلاف اقدامات کرکے ملک کو اس ناسور سے پاک کیا جائیگا مگر مجال ہے کہ ایسا کچھ ہوتا دکھائی دیا ہو۔ نجی سطح تو اپنی جگہ‘ اعلیٰ  اور سرکاری سطح پر بھی کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر کرپشن ختم کرنے کا پختہ عزم کرلیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ قوم کو اس سے خلاصی نہ مل سکے۔ اسکے خاتمے کے بعد مہنگائی کے وہ طوفان بھی تھم جائیں گے جو منافع خوروں‘ ذخیرہ اندوزوں اور مصنوعی مہنگائی کرنے والے مافیاز کی وجہ سے پورے ملک پر چھائے ہوئے ہیں۔
 دیکھتے ہیں کہ اس سال کا باندھا گیا عزم اگلے سال تک کتنا بارآورثابت ہوتا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے‘ جن اداروں نے ان مافیاز پر ہاتھ ڈالنا تھا‘ انہی کو عملی طور پر مفلوج کرکے رکھ دیا گیا ہے۔  اس لئے اس دن کے منانے کا مقصد تو فوت ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔
٭…٭…٭
مونالیزا جس کو اٹلی کے ایک مصور نے امر کر دیا‘  کاشہرۂ آفاق وصف تو اسکی وہ مسکان تھی‘ جو شاید اس قدر لطیف سمجھی جاتی ہے کہ اسے مسکان کی علامت کہا جانے لگا ہے۔ حسن ایک تحریر ہے‘ جسے یزداں نے رقم کیا ہے اور ابھی اس کا حسین قلم حسن کی تحریر سے رکا نہیں‘ یہی وجہ ہے کہ کتنی ہی مونالیزائیں دنیا میں رلتی پھرتی ہیں جو ہونٹوں پر بے نام سی مسکراہٹ لئے ہوتی ہیں۔ لیکن افسوس حسن کے پجاریوں نے مونا کی مسکراہٹ پر ہی پڑائو ڈال لیا۔ 
جو شخص حسن کو چند چہروں میں متعین کرلیتا ہے، یقیناً اسکی نظروں سے باقیماندہ کائنات کی خوبصورتی اوجھل ہو کر رہ جاتی ہے۔ اگر ان چند چہروں سے نگاہیں ہٹا کر دیکھا جائے تو  انسانی نظر دم توڑ جائیگی لیکن خالق کی تخلیق کردہ کائنات کی خوبصورتی ختم نہیں ہو پائے گی۔
پہلی نظر میں حسن اکثر نفسِ امارہ کی زد میں آتاہے‘ جو انسان کو اس حسنِ عالم تاب سے محروم کر دیتا ہے۔اگر دنیا کی مونا لیزائوں سے ہٹ کر اس جہاں کے قدرتی مناظر کا نظارہ کیا جائے تو کئی لیزائوں کی مسکراہٹیں اسکی خوبصورتی میں دفن ہوتی نظر آئیں گی۔ لہٰذا مونالیزا کی مسکراہٹ پر صرف یہی کہنا کافی ہے…؎
جانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں اس میں
راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری  ہے
٭…٭…٭
سائنس دانوں نے گھوڑے کے جنیاتی کوڈ ’کو ’ڈی کوڈ‘‘ کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس میں جنیاتی کوڈ اور انسانی کوڈ میں کئی خصوصیات مماثل ہیں۔
چونکہ ابھی سائنس دانوں نے ’’ڈی کوڈ ‘‘ کی تفصیلات نہیں بتائیں‘ مگر سمجھ یہی آتا ہے کہ جنیاتی کوڈ والے گھوڑے شائد کسی کوڈ نمبر کے تحت چلتے ہونگے۔ اگر یہ گھوڑے ہمارے ہاں آجائیں تو پھر کہاں کا کوڈ اور کہاں کی نزاکتیں۔اس وقت  انکے سب کوڈ نمبر گڈمڈ ہوکر رہ جائیں گے جب لوہاری گیٹ سے یکی گیٹ اور بھاٹی سے دو موریا پل کے علاقوں میں چلنے سے انکی مت ماری جائیگی۔ ممکن ہے جن گھوڑوں کے جنیاتی کوڈ کو ’ڈی کوڈ‘‘ کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے‘ وہ کسی خاص نسل سے تعلق رکھتے ہوں۔ 
ہمارے گھوڑوںکے کوڈکی تو بہت دور کی بات ہے‘ ان کی تو بریکیں بھی نہیں ہوتیں‘ اکثر وہ گاڑیوں سے ٹکرا جاتے ہیں جس سے گاڑی کے مالک کو خاصہ نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے گھوڑوں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ وہ صرف فلموں میں ہی کام نہیں کرتے بلکہ ان پر مشہور گیت بھی لکھے اور گائے گئے ہیں۔ یہ گیت تو بہت ہی مشہور ہوا ہے …؎
ٹانگے والا خیر منگدا‘ 
ٹانگہ لہور دا ہوے تے پاویں جھنگ دا
اسی طرح  ایک اور گیت:
ٹانگہ لاہوری میرا‘ ٹانگہ پشوری میرا
بیٹھو میاں جی بیٹھو لالہ
 میں ہوں البیلا ٹانگے والا
کیا جنیاتی کوڈ والے گھوڑوں پر کوئی گانا یا غزل لکھی گئی ہے۔ اب تو گھوڑے والے ٹانگوں کا زمانہ ہی ختم ہو گیا ہے‘ اس پر سواری کرنے کا لطف ہی کچھ اور ہوا کرتا تھا۔نہ شور نہ دھواں‘ اسکی ٹاپیں انسانوں کے دل موہ لیا کرتی تھیں۔اب انکی جگہ چنگ چیوں اور رکشائوں نے لے لی ہے‘ جو انسانوں کے دل جیتنے کے بجائے‘ دماغ گھمانے والا شور کرتے پھرتے ہیں۔اندازہ لگائیں‘ ایک بس  سینکڑوں مسافرلئے خاموشی سے گزر جاتی ہے اور یہ صرف دو سواریاں بٹھا کر پورا آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ 
٭…٭…٭
فٹبال ورلڈ کپ کا سر چڑھتا جنون‘ اپریشنز کے دوران دو مریض میچ دیکھتے رہے۔ 
مختلف کھیلوں کے دیوانے یوں تو دنیا بھر میں موجود ہیں لیکن قطر میں جاری فیفا فٹبال ورلڈ کپ کے ان دو مریضوں کی دیوانگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے اپریشن کے دوران بھی فٹبال میچ سے محظوظ ہوتے رہے۔ یہ واقعہ اپنی نوعیت کا انوکھا نظر آتا ہے۔ اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ان دونوں کو اپنی جان سے زیادہ فٹبال میچ عزیز تھا جنہوں نے بقائمی ہوش و ہواس اور بلاخوف، اپریشن کے دوران بھی میچ دیکھنے سے گریز نہ کیا۔
آفرین ہے ہسپتال انتظامیہ پر جس نے ان مریضوں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اپریشن تھیٹر میں ٹی وی سکرین لگوا دی۔ ہمارے ہاں اگر ایسی خواہش کا اظہار کیا جاتا تو ڈاکٹر حضرات مریض کو یہی مشورہ دیتے کہ جناب پہلے سکون سے میچ دیکھنے کا شوق پورا کر لیں‘ پھر آکر اپریشن کروا لینا۔ ایسا جنون کرکٹ کے حوالے سے بھی لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ دور کی بات نہیں‘ ہمارے اپنے ملک میں بابائے کرکٹ موجود ہیں جنہیں کرکٹ سے اتنا لگائو ہے کہ انہوں نے شارجہ میں ہونیوالا ورلڈ کپ لائیو دیکھنے کیلئے اپنا ذاتی گھر بھی بیچ ڈالا تھا۔ اب یہ بابائے کرکٹ پاکستان کی شان بن چکے ہیں اور ہر ورلڈ کپ کے موقع پر سٹیڈیم پہنچ کر اسکی شان بڑھا دیتے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن