اب امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں  پاکستان کا فرنٹ لائن اتحادی بنے

Dec 10, 2022


امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ دہشت گرد پاکستان پر حملوں کیلئے افغان سرزمین استعمال کر سکتے ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت  گرد منظم ہو رہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ افغانستان پھر سے عالمی دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہ بن جائے۔ پاکستان دہشتگردی کی جنگ میں اہم شراکت دار ہے۔ دوسری طرف ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں ہے۔ پاکستان میں بھارت ریاستی دہشت گردی میں ملّوث ہے۔ عالمی برادری اس معاملے کا نوٹس لے۔ 
دہشت گردی ایک عالم گیر مسئلہ ہے جس نے کم و بیش دو عشروں تک پوری دنیا کا امن و امان تہہ و بالا کیے رکھا۔ اس مسئلے کو بنیاد بنا کر عالمی سپرپاور امریکہ نے ایک دنیا کو اپنے ایجنڈے کے تحت اکٹھا کیا اور پھر اس کی آڑ میں ایک نئی جنگ کا آغاز کر دیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز /11 ستمبر 2001ء سے ہوا جب نیویارک ( امریکہ)  کے عالمی تجارتی مرکز (ورلڈ ٹریڈ سنٹر) کی بلند و بالا عمارات سے دو مسافر بردار طیارے ٹکرا گئے اور اس حادثے کا ذمہ دار القاعدہ نامی تنظیم کو ٹھہرا یا اور ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے نام سے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کر دی گئی جس کا پہلا ہدف افغانستان کو بنایا گیا۔ پاکستان  اس جنگ میں  ڈرون حملوں اور گن شپ  ہیلی کاپٹروں کی پاکستانی چیک پوسٹوں پر گاہے بگاہے ہونے والی فائرنگ کی شکل میں خود بھی امریکی حملوں کا نشانہ بنتا رہا اور فرنٹ لائن اتحادی ہونے کی بنا پر آج تک اس کا بھگتان بھگتا رہا ہے ۔ امریکی انتظامیہ نے جب افغانستان کو ’’تورا بورا‘‘ بنانے کا فیصلہ کیا تو پاکستان کی عسکری قیادت نے جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں اس جنگ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ امریکی حکومت کی وہ دھمکی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ اگر پاکستان نے اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ نہ دیا توپاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچا دیا جائیگا۔‘‘ چنانچہ پاکستان نے امریکہ کو اس جنگ میں لاجسٹک سپورٹ مہیا کی، امریکی جنگی طیاروں کو ائیر بیس فراہم کیے اور انٹیلی جنس کے حوالے سے معاونت کی۔ امریکا نے ان ’’ خدما ت ‘‘ کے عوض پاکستا ن کو دفاعی امداد کے ساتھ ساتھ کولیشن سپورٹ فند کے تحت چھ ارب  ڈالر دینے   کا معاہدہ  بھی کیا جو کیری لوگر بل کی شکل میں آج بھی امریکی دفتر خارجہ کی فائلوں میں موجود ہوگا ۔
امریکہ نے اس جنگ سے پہلے نیٹو میں شامل ممالک کا اعتماد حاصل کیا اور ایک مشترکہ فوج تیار کی جس نے امریکی جرنیلوں کی کمانڈ میں افغانستان پر زبردست بمباری کرتے ہوئے اسکی اینٹ سے اینٹ بجا دی، امریکہ بظاہر یہ جنگ جیت گیا۔ افغانستان میں قائم طالبان کی حکومت ختم ہو گئی اور اس کی جگہ امریکی سرپرستی میں کٹھ پتلی حکومت اقتدار پر قابض ہو گئی لیکن پاکستان فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرنے کے جرم میں آج تک اس ردِّعمل کا سامنا کرتا چلا آ رہا ہے، جس کا اظہار افغانستان میں امریکی جنگ کا ہدف بننے والے جنگجوئوں کی طرف سے کیا گیا۔ افغانستان میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے گو کہ اپنی طاقت کے زور پر کابل میں اپنی پسند کی حکومت قائم کر لی لیکن دیگر علاقوں میں اس حکومت کی رٹ قائم کرنے میں  ناکام رہے۔ ان علاقوں میں طالبان کی طرف سے مزاحمت جاری رہی اور اس طرح افغانستان برسوں تک خانہ جنگی کا شکار رہا۔ امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کی تقریباً ایک عشرہ تک کی جاری کوشش کے باوجود جب افغانستان پر قابض کٹھ پتلی حکومتیں اپنے پائوں جمانے میں ناکام رہیں اور ان کی انتظامی طور پر گرفت کمزور پڑ گئی تو امریکہ کو آخرکار طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے اور پاکستان نے ان مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں افغانستان کی امریکہ نواز حکومت اقتدار سے محروم کر دی گئی اور اسکی جگہ طالبان کی حکومت قائم ہو گئی۔ معاہدے کے تحت امریکہ اور اس کی اتحادی افواج نے افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کیا اور حکومت کا کنٹرول مکمل طور پر افغان طالبان کے ہاتھ میں آ گیا اور وہاں امارتِ اسلامیہ افغانستان کے نام سے حکومت قائم ہو گئی لیکن اس  تمام عرصہ میں جس میں امریکی اشیرباد سے افغانستان پر حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتیں قائم رہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کی پے درپے کارروائیاں ہوتی رہیں۔ جن میں افغانستان کی خفیہ ایجنسی ’’خاد‘‘ اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی مکمل سپورٹ شامل رہی۔ پاکستان کی عسکری قیادت اور سول حکومت نے دہشتگردی کیخلاف زبردست جنگ لڑی، دہشت گردوں کیخلاف ضربِ  عضب  اور ردّالفساد کے نام سے آپریشن کئے۔ جن کے نتیجے میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی، تاہم اس جنگ میں کامیابی کے حصول کیلئے پاکستان کو 80   ہزار  سویلینز اور فوجی جوانوں کی قیمتی جانوں کی بھاری قربانیاں دینا پڑیں۔ امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان کو یکا و تنہا چھوڑ دیا جس کی وجہ سے اسے بہت سے انتظامی ، سماجی اور معاشی نوعیت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان نے ایک برادر ہمسایہ ملک کے طور پر افغانستان کی حکومت کی ہر سطح پر بھرپور مدد کی اور امریکہ نے افغانستان کے جو اثاثے منجمد کر رکھے ہیں ان کی بحالی کیلئے سفارتی سطح پر بھرپور کوشش کی۔ لیکن دوسری طرف سے افغانستان کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی کے بجائے سرد  مہری کا مظاہرہ کیا۔ امارت اسلامیہ افغانستان نے پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین کو دہشت گردی کیلئے استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی لیکن  تحریکِ طالبان پاکستان کی طرف سے افغانستان کی سرزمین کا آزادانہ استعمال جاری  رہا اور وہ پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیاں بدستور جاری رکھے ہوئے ہے۔ 
ان حالات میں چاہیے تو یہ تھا کہ امریکہ پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی ہونے کی بنا پر بھرپور سپورٹ مہیا کرتا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا لیکن اس نے محض پاکستان کی قربانیوں اور کردار کو لفظی اور زبانی طور پر سراہنے سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں یہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کیلئے عالمی سطح پراجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کا اصل منبع اور روٹ کاز بھارت ہے لیکن امریکی انتظامیہ بھارت کی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اسے پوری سپورٹ مہیا کر رہی ہے جو دہشت گردی کیخلاف اسکے دوہرے کردار کی غمازی کرتی ہے۔ امریکی انتظامیہ کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے اور دنیا کو دہشت گردی سے پاک کرنے کیلئے اب پاکستان کا ’’فرنٹ لائن اتحادی‘‘ بننے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ 

مزیدخبریں