سنگاپور کمزور اور غریب ملک تھا ۔اسکے پاس پوری زمین بھی نہیں تھی اور نہ ہی قدرتی وسائل تھے۔ پینے کیلئے صاف پانی بھی نہیں تھا۔1960 میں سنگاپور کی فی کس آمدنی 427 ڈالر تھی۔ اسکی فی کس آمدنی 2022 میں 79426 ڈالر ہے۔ یہ معجزہ ایک مثالی انسان اور عظیم لیڈر لی کوان اور اسکے رحمدل محب الوطن دوست گوہ کینگ اور لیکوان کے بیٹے جی بی لی نے کر دکھایا ۔آج سنگاپور گورننس کے حوالے سے دنیا کا بہترین ماڈل ہے۔ لی کوان نے نصف صدی تک پیپلز ایکشن پارٹی اور سنگاپور کی قیادت کی اور اسکے دوست نے قیادت سنبھالی تو لیکوان سینئر منسٹر کے طور پر کام کرتے رہے تاکہ سنگاپور درست سمت میں چلتا رہے۔ صرف تین وزرائے اعظم نے سنگاپور کو دنیا کی عظیم قوت بنا دیا۔ پالیسیوں کا تسلسل جاری رہا ۔قیادت نے اپنی دھرتی کے ساتھ بے لوث وفاداری نبھائی۔لیکوان نے 1965 میں کہا فری سوسائٹی کا کیا مطلب ہے۔کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ سیاستدان لوٹ کھسوٹ کیلئے آزاد ہیں اور عوام بھوکے اور جاہل رہنے پر مجبور ہوں۔سنگاپور کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہاں پر کرپشن کو برداشت نہیں کیا گیا اور دنیا بھر میں سب سے زیادہ پھانسیاں سنگاپور میں دی گئیں۔شفاف اور یکساں احتساب کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتے۔لیکوان کا یقین محکم تھا کہ کرپشن کے خاتمے کے بغیر سنگاپور ترقی نہیں کر سکتا ۔ وہ کرپٹ عناصر کو دفاع کا حق دینے کیلئے بھی رضامند نہیں ہوتے تھے۔انہوں نے انتظامیہ کو کرپٹ عناصر سے پاک رکھا۔ بیوروکریٹس کو دنیا بھر سے زیادہ تنخواہیں اور مراعات دیں۔ سنگاپور میں منسٹر آف سٹیٹ کی تنخواہ امریکی صدر سے زیادہ ہے۔لیکوان ارسطو کے اس قول سے پوری طرح متفق تھے ۔" نیشنل بلڈنگ صرف اچھے لوگ ہی کر سکتے ہیں"۔لی کوان کی ٹیم اہل دیانت دار اور محب الوطن تھی۔
لیکوان سوشلسٹ اور عملیت پسند تھے۔اس نے بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو سازگار ماحول دیا۔سنگاپور میں گھروں کی کمی تھی اور لوگ بے روزگار تھے۔ لیکوان نے یہ دونوں مسئلے حل کرنے کیلئے ہاؤسنگ سیکٹر پر خصوصی توجہ دی جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔ سنگاپور نے پبلک کارپوریشنوں کو کامیابی سے چلا کر دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ کامیابی میرٹ اور صرف میرٹ پر عمل کرنے کی بنا پر حاصل ہوسکی۔لیکوان نے سنگاپور میں ایسی مصنوعات تیار کرنے کیلئے صنعتیں لگائیں جن کو برآمد کیا جا سکے۔ آج سنگاپور اعلیٰ کوالٹی کی مصنوعات برآمد کرنے والا بڑا ملک بن چکا ہے۔ اسکی ترقی کا انحصار جدید ٹیکنالوجی ٹیکس کی کم شرح اور بیرونی سرمایہ کاری کیلئے انتہائی سازگار ماحول ہے۔سنگاپور میں نیت دیانت اور محنت کے اصول پر عمل کیا جاتا ہے۔سنگاپور میں آئین اور قانون کی حکمرانی ہے ہر شخص کو یقین ہے کہ اگر اس نے قانون کو توڑا تو وہ سزا سے کبھی نہیں بچ سکے گا۔ اس طرح سنگاپور قانون پر عمل کرنے والا دنیا کا اہم ترین ملک بن چکا ہے۔لیکوان نے اپنے ملک کے شہریوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی اور ان میں نظم و ضبط پیدا کیا۔سنگاپور دنیا کا صاف ترین ملک ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ سنگاپور کے شہریوں کو سڑکوں پر تھوکنے کی اجازت نہیں اور ان کو جرمانہ کردیا جاتا ہے۔ سنگاپور ائرلائن کا شمار دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں ہوتا ہے۔
سنگاپور ائرلائن پبلک سیکٹر میں ہے حکومت اس کو کامیابی کے ساتھ چلا رہی ہے۔سنگاپور میں انفراسٹرکچر پر بہت توجہ دی گئی ہے تاکہ لوگ آسانی کے ساتھ کم وقت میں مارکیٹوں اور دفتروں اور سکولوں تک پہنچ سکیں۔ سنگاپور میں بہترین انڈسٹریل پالیسی تشکیل دی گئی ہے ۔ کوالٹی یعنی معیار پر پوری توجہ دی جاتی ہے۔ لیبر کو مطمئن رکھا جاتا ہے سیونگ کی شرح بلند ہے بجٹ متوازن رہتا ہے۔ ٹیکس کم لگائے جاتے ہیں شرح سود بھی کم رکھی گئی ہے۔ سنگاپور کی معاشی پالیسی میں مہارت استعداد اور پیداوار پر توجہ دی گئی ہے۔ سنگاپور میں نسلی امتیاز کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ بہترین لوکیشن کی وجہ سے سنگاپور دنیا کا ٹریڈ سینٹر بن چکا ہے اس کا اپنا دفاعی نظام ہے اور خوبصورتی کی وجہ سے ٹورسٹ کیلئے پر کشش ہے۔چین کے عظیم لیڈر ڈینگ زیاو پنگ نے لیکوان سے ملاقات کرکے کامیابی کے گر سیکھے اور ان کو چین میں نافذ کیا ۔ چین سنگاپور کے کامیاب معاشی ماڈل کو فالو کر کے دنیا کی عظیم معاشی طاقت بن چکا ہے۔چین اور سنگاپور دونوں ملکوں کی ترقی اور خوشحالی اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ جب تک کسی ملک کا نظام صاف شفاف مساوی نہ ہو اور جس میں قانون کی حکمرانی نہ ہو جہاں پر میرٹ کو ترجیح نہ دی جاتی ہو وہ ملک کبھی ترقی نہیں کرسکتے ۔پاکستان کو اللہ تعالی نے ہر قسم کی نعمتیں عطا کر رکھی ہیں جو سنگاپور کے پاس نہیں تھیں۔ آج بھی پاکستان سنگاپور اور چین کے تجربات سے سیکھ کر سیاسی اور معاشی استحکام پیدا کر سکتا ہے۔
محترم علی محمود کا شمار پاکستان کے نامور اورمعروف مصنفین میں ہوتا ہے۔انہوں نے پاکستان اور لندن سے پالیٹکس اکنامکس اور لا کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وہ سینٹ کے ممبر رہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ان کو 14 سال کی سزا دی گئی انہوں نے ایک سال جیل کاٹی۔ وہ لندن میں جلاوطن بھی رہے اور وہاں پر سیاسی پناہ حاصل کر لی۔ وہ ایک معروف کاروباری شخصیت ہیں ۔ پاکستان اور دبئی میں ٹیلی ویژن اور پرائیویٹ پاور جنریشن ابودھابی میں کنسٹرکشن کویت میں آئل ٹریڈنگ قزاقستان میں ایئر لائن مارکیٹنگ کا بزنس کرتے ہیں۔ ۔علی محمود صاحب نے عالمی معیار کی تین کتب لکھی ہیں۔
اس کالم کیلئے انکی کتاب سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔آجکل چین کے بارے میں کتاب لکھ رہا ہوں۔ محترم علی محمود صاحب سے رہنمائی حاصل کر رہا ہوں چین پر ان کی کتاب اینٹر دی ڈریگون لاجواب ہے۔
آئیے سنگاپور سے سیکھیں
Dec 10, 2022