چند روزپہلے ایک کام کے سلسلے میں مجھے فیصل آباد جاناپڑا،بڑی سڑک خراب ہونے کی وجہ سے دریائے راوی کے ساتھ ساتھ ایک مخملیں سڑک پرڈرائیو کرنے کا موقع ملا۔یہ سڑک میرے ناسٹلجیا کاحصہ ہے، دونوں طرف جنڈ، کریر,ون,بور اور شرینہ کے درخت تھے۔ خودرَو سرکنڈوں میں سے کہیں کہیں جنگلی کیکر بھی جھلک پڑتے تھے۔اس علاقے کاذکر یہاں کیوں ہوا,اس بارے میں عرض کروں کہ یہ علاقہ میرے آبا واجداد کی جنم بھومی ہے۔یہ پرانے رجواڑوں کی ان کہی کہانیوں کامدفن ہے۔یہاں نجانے کتنے گجرے ٹوٹے ہیں،کنوئیں سے پانی بھرتی ہوئی پنہارنوں کے مٹکے پھوٹے ہیں۔علاقے کے کچے مکانات اور سادہ وضع قطع کے لوگ دیکھ کر مجھے ایک دم یہ محسوس ہوا کہ جیسے میں 2022ء سے الٹی زقندلگا کر 1857ء کے زمانے میں جاپہنچا ہوں۔اسی علاقے سے احمدخان کھرل نے آزادی کی آواز بلندکرکے پنجاب کے نوآبادیات دوستی کے تصور کو ملیامیٹ کردیا تھا، اب جس علاقے کے اصل مکین اپنے لہجے کے اختلاف اور غربت کی وجہ سے جانگلی کہلاتے ہیںاورانھیں شعوری طورعلم ودانش اور بنیادی انسانی ضرورتوںسے محروم رکھ کے ریڈ انڈینز بنادیاگیا ہے۔ اس علاقے میں ہڑپا,نورشاہ، گوگیرہ، جیوے خان، جبوکہ، جندراکہ، ست گھرہ، جھامرہ، شیخو شریف، گڑھ فتح شاہ، موضع اکبر ،پنڈی شیخ موسیٰ اور کھائی کے گمنام علاقے ہیں۔ اسی علاقے سے ظفراقبال،جعفر شیرازی، مراتب اختر، ناصر شہزاد، یاسین قدرت، اکرم کلیم، سیدافضال گیلانی، سیدعلی ثانی,ڈاکٹراصغر بلوچ، پروفیسر اقبال عابد, زاہدحسن،مشتاق عادل، شکیل امجد صادق، مطلوب حسین، اللہ یارثاقب،کاشف حنیف، اقرار مصطفی اورعون الحسن غازی جیسی ادبی شخصیات نے شعروسخن میں نام پیدا کیا۔اشرف یوسفی بھی اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک اہم شاعرتھے۔انکے دادا علاقے کے مشہور صراف تھے۔ان کاکاروبار چاروں طرف پھیلا ہواتھا۔
یوں سمجھ لیں کہ اشرف یوسفی کی شاعری میں زندگی کے خوب صورت رنگ اسی علاقے کے عطاکردہ ہیں۔ گوگیرہ میں پیدا ہونیوالے اشرف یوسفی نے بعد میں دھوئیں اورلٹھے کے شہر فیصل آباد کے شعری منظرنامے میں نمایاں مقام حاصل کیا،اور قومی دھارے میں شامل ہوگئے۔اشرف یوسفی سے میری پہلی ملاقات انیس سوچورانوے میں ہوئی،وہ سید جعفر شیرازی کو اپنا اولین شعری مجموعہ ’’ایک پیالہ پانی‘‘ دینے آئے تھے۔میں ان دنوں بی اے کا طالب علم تھا۔ان دنوں کسی شعری مجموعے کی اشاعت اصل معنوں میںایک اہم خبر ہوتی تھی۔کتاب کی اشاعت سے پہلے سودفعہ سوچنا پڑتا تھا،’’کاتا اور لے دوڑی‘‘والا معاملہ نہیں تھا۔یہ ایک سرسری سی ملاقات تھی،بہت عرصے بعد ڈاکٹرقاسم یعقوب کے رسالے ’’نقاط‘‘ میں اشرف یوسفی کی شاعری پر خصوصی گوشہ شائع ہوا، تویہ ان سے رابطے کا ذریعہ بن گیا،میں ان دنوں گورنمنٹ کالج ساہیوال میں شعبہ اردو سے بطور لیکچرار منسلک تھا۔ان سے تعلق کی ابتدا ہوئی تو گویا ایک دبستان کھل گیا،ان کے ساتھ بہت سے علمی ادبی موضوعات پر مکالمہ ہوا، فون پر لمبی لمبی باتیں ہونے لگیں۔ان سے شناسائی کے متعدد نئے پہلو نکل آئے۔وہ اکثر مجھے دوست احباب کی کتابیں ارسال کرتے،انکی خواہش ہوتی کہ میں ان پررائے دوں،ایک روزانھوں نے مجھے ایک خاتون کا شعری مجموعہ بھیجا اور ساتھ اس پرتبصرہ کرنے کا کہا،جب ذرا تاخیرہوگئی تو باقاعدہ مجھ سے ناراض ہوئے، بڑی مشکل سے مانے،اس روز اندازہ ہوا کہ وہ مشروط تعلق کے عادی نہ تھے۔یوسفی صاحب کی وساطت سے میرا تعلق آنسہ احمدسعید اعوان سے ہوا۔اُنکے خاوند احمد سعیداعوان ،بے نظیر بھٹوکی وزارت عظمیٰ میں وزیر اطلاعات تھے۔آنسہ سے بہن بھائیوں کی طرح مضبوط رشتہ قائم ہوا۔ان کے شعری مجموعے ’’رنج سفر‘‘ کا دیباچہ بھی میراتحریر کردہ ہے۔افسوس کہ آنسہ بھی اب دنیا میں نہیں رہیں۔’’خشک پتوں کی طرح لوگ اُڑے جاتے ہیں‘‘۔
یوسفی صاحب کی میرے ساتھ محبت کا یہ عالم تھاکہ ایک دن مجھے اُنکی کال آئی،کہنے لگے کہ آپ اپنی اور اپنے بچوں کی کوئی تصویر بھیجیں۔مجھے پتانہیں چلاکیوں منگوا رہے ہیں،جب انکااصرار بڑھ گیا تومیںنے ایک خاندانی تقریب کی گروپ فوٹو بھیج دی۔ابھی چندہی روزگزرے تھے کہ انکی طرف سے ایک بھاری پارسل موصول ہوا، اسے کھولا گیا تواس میں سے مختلف سائز کے بہت سے ٹراوزر،ٹی شرٹیں اور سوتی جیکٹ نکلے، انھوں نے میری اور میرے بچوں کی تصویر دیکھ کر اندازے سے بھاری تعداد میں یہ تحائف بھیجے تھے،اور اندازہ ایسا کہ یہ مجھے اورمیرے بچوں کو بالکل پورے آئے۔میں نے شکریہ اداکیا،کہنے لگے گارمنٹس کا کاروبارشروع کیاہے،آپ اورآپکے بچے قدآور اور وجیہہ ہیں،یہ تحائف آپ لوگوں پرسجیں گے اس لیے بھیج دیے۔میرے بیٹے مہرعلی نے جب پہلی غزل کہی،تو مجھے اسکی اتنی زیادہ خوشی ہوئی جوشاید اسکی پیدائش پر بھی نہیں ہوئی ہوگی۔میرے کہنے پراس نے وہ غزل اصلاح کیلئے یوسفی صاحب کوبھیج دی۔ دوسرے روز انکافون آیا ،کہنے لگے ڈاکٹر صاحب! کمال ہے۔ آپ بھی پیر نکلے۔پیر اپنے بچوں کو اپنا نہیں کسی اور کا مرید کرواتے ہیں۔اسکے بعد پیری مریدی کایہ سلسلہ چل نکلا۔ایک روز انھوں نے مجھے ایک آزاد نظم بھیجی اور بتایا کہ آپکو معنون کی ہے،طویل نظم کے چندمصرعے دیکھیں:
مالک الملک ِ سلیمان ِمحبت مرے دوست!
تم ابھی تک ہو اسی تخت ِ تصور پہ نشیں
جس کے شانے پہ پیامی طائر۔۔۔
تم فقط جس کی زباں جانتے ہو
وہی ہُد ہُد وہ حسیں قاصد فرخندہ پے
اب بھی کانوں میں یہ کچھ کہتا ہے
اور دمک اٹھتا ہے روئے تمکیں
یوسفی صاحب اپنی صحت کے بارے میں خاصے فکرمند تھے، ایک روزدل کاشدیددورہ آیا۔کارڈیالوجی سنٹر سے وقت نہیں ملا۔یونان میں مقیم بیٹے کے ساتھ علاج کیلئے یورپ جانا چاہتے تھے لیکن اس کی نوبت نہ آسکی۔ علامہ اقبال نے کہیں لکھاہے:’’وطن شاعروں کے دماغوں میں جنم لیتے ہیں اورسیاست دانوں کے ہاتھوں بربادہوتے ہیں‘‘۔ جس معاشرے میں اہلِ ثروت ودولت سرکاری خرچے پر علا ج کروائیںاوراہل نظرکسمپرسی کے عالم میں دنیا سے رخصت ہوں ،وہ اعلیٰ اصولوں کا پاسدار نہیں ہوسکتا،اس قومی بددیانتی کا خمیازہ تو خیر نسلیں بھگتیں گی۔اشرف یوسفی بھی ہماری اجتماعی بے حسی کی نذرہوئے۔