پنجاب میں آئندہ چند روز کے اندر زرداری فارمولا نافذ ہونے کا عندیہ مل رہا ہے۔ ذرائع کیمطابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی، چودھری شجاعت حسین، آصف علی زرداری اور مسلم لیگ ن کے درمیان مشترکہ اور مقتدر دوستوں کی ضمانت کے بعد معاملات طے پا گئے ہیں۔ معاملات طے پانے کے بعد پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کے امکانات بالکل معدوم ہو گئے ہیں جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی کی قیادت کی آج کی بیٹھک کے بعد میڈیا سے گفتگو میں بڑے کمزور انداز میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے پر قائم رہنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ پی ٹی آئی قیادت کے مطابق چیئرمین عمران خان آئندہ چند روز میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں توڑنے کی حتمی تاریخ دے دینگے۔ وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کھل کر کہہ چکے ہیں کہ تین ماہ سے پہلے اسمبلی نہیں توڑی جا سکتی ہے لہٰذا پی ٹی آئی قیادت کی ہٹ دھرمی پنجاب میں زرداری فارمولے کے جلد نفاذ کا باعث بن جائیگی جس کے تحت چودھری پرویز الٰہی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رہیں گے جبکہ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے وزراء شامل ہونگے۔ پی ٹی آئی کابینہ تحلیل کر دی جائیگی۔ اس صورتحال پر چودھری پرویز الٰہی انتہائی مطمئن ہیں یہی وجہ کہ انہوں نے عمران خان کی مرضی کیخلاف اپنی کابینہ میں اضافہ کیا ہے اور خیال کاسترو کو وزیر بنا دیا ہے۔ خیال کاسترو ہیں تو پی ٹی آئی کے ممبر صوبائی اسمبلی مگر پرویز الٰہی کے دیرینہ ساتھی اور 2003 کے پرویز الٰہی حکومت میں کابینہ کا حصہ رہنے والے ڈاکٹر شفیق چودھری کے برادر نسبتی ہیں۔ چودھری شفیق کی جانب سے یہ یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ خیال کاسترو چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے دی گئی پالیسی پر کام کریگا بلکہ وہ چوہدری برادران کا وفادار بھی رہے گا۔ چودھری پرویز الٰہی پی ٹی آئی کے اکثر وزیروں کی من مانیانیوں اور نڈر کرپشن سے خاصے نالاں نظر آتے ہیں ایک محکمے کے سیکرٹری تو اسقدر ڈپریشن کا شکار ہیں کہ انکے پرسان حال ہی کوئی نظر نہیں آتا حال ہی میں انھوں نے کرپشن کی شکایات حد سے تجاوز کرنے پر ایک ڈائیریکٹر سے اضافی چارج واپس لیا تو وزیر موصوف انکا فیصلہ واپس کروانے کیلئے لڑائی جھگڑے پر اتر آئے۔ سیکرٹری نہ مانے تو اسقدر واہ ویلا مچایا کہ سیکرٹری کو اپنا فیصلہ واپس لیکر وزیر اور انکے بھائی کے سمدھی کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ حال ہی میں ہونیوالے ڈی جی پی آر کے تبادلے کے متعلق کہا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی ترجمان نے کروایا ہے مگر اس میں نہ ہی کوئی حقیقت ہے نہ سچائی۔ یہ تبادلہ بیوروکریٹک لڑائی کی نذر ہوا ہے۔ محکمہ پرائمری سیکنڈری ہیلتھ میں ملتان سے تعلق رکھنے والے افسران کو وزیر موصوف پُرکشش پوسٹوں پر تعینات کر رہے ہیں۔ محکمہ کے سیکرٹری کے پاس کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں اُنکے تمام اختیار وزیر موصوف استعمال کرتے ہیں۔ سپیشل سیکرٹری پرائمری سیکنڈری ہیلتھ کو بھی حال ہی میں تعینات کیا گیا ہے۔ اُنکی سپیشلائزیشن بھی ملتان کا ڈومی سائل ہے۔ محکمہ میں کرپشن آسمان کو چھو رہی ہے مگر تمام اربابِ اختیار آنکھیں بند کر کے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
چیف سیکرٹری پنجاب جو کئی ماہ سے ڈیلی ویجر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے اُنکے عہدے کا تقدس یہ ہے کہ اُن کا باقاعدہ بطور چیف سیکرٹری نوٹیفکیشن کیا جائے نہ کہ انہیںگھنٹوں، دنوں، مہینوں کی ایکسٹینشن دی جائے۔ جس صوبے کا آئینی قانونی سربراہ خود اپنی تعیناتی کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہوگا اُس صوبے میں بیوروکریسی اسی طرح مبینہ کرپٹ سیاست دانوں کے ہاتھوں پسپا ہوتی رہے گی۔
صوبہ پولیس سربراہ کے بغیر چل رہا ہے۔ پولیس کا مورال بھی ڈاؤن ڈاؤن سا نظر آتا ہے۔ آخر کار غلام محمود ڈوگر کو اعلیٰ عدلیہ سے انصاف تو مل گیا مگر اسٹبلشمنٹ کے غیر قانونی احکامات کی تلوار ابھی بھی اُنکے سر پر لٹک ر ہی ہے۔ دوسری طرف خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے اپنے وزیراعلیٰ اور انکی صوبائی قیادت خیبر پختونخوا اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں ہے۔ اس صورتحال نے عمران خان کو سخت مشکل میں ڈال دیا ہے اور وہ اس سے نکلنے کا محفوظ راستہ تلاش کر رہے ہیں۔
اسی طرح آجکل توشہ خانہ کیس کے بہت چرچے ہیں۔ ایک روز قبل سابق خاتونِ اوّل بشریٰ بی بی اور زلفی بخاری کے درمیان گھڑیاں بیچنے کے حوالے سے آڈیو لیک ہوئی ہے۔ اس آڈیو میں سنا جا سکتا ہے کہ بشریٰ بی بی کو جو کہ وٹو فیملی سے ہیں، سید زلفی بخاری ’’مرشد… مرشد‘‘ کہہ کر مخاطب کررہے ہیں۔ اسی اندازہ لگا لیں کہ اس دور میں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے اگر ہم توشہ خانہ کے حوالے سے دنیا کے سب سے بڑی سلطنت رکھنے والے مسلمان خلیفہ حضرت عمر فاروقؓ کے دور اقدس سے کچھ مثالیں لکھیں تو توشہ خانے پر ڈاکہ ڈالنے والے حکمرانوں کیلئے انتہائی شرمندگی والی بات ہوگی ۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں بصرہ کے گورنر حضرت ابو موسیٰ کے خلاف شکایت آئی۔ آپؓ نے ابو موسیٰ کو طلب کر لیا اور کہا: ’’ابو موسیٰ ! میں نے سُنا ہے تجھے جو تحائف ملتے ہیں وہ تُم خود رکھ لیتے ہو بیت المال میں جمع نہیں کراتے‘‘۔
حضرت ابو موسیٰ بولے! حضور! وہ تحائف مجھے ہی ملتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’وہ تحائف تجھے نہیں بلکہ تمہارے عہدے کو ملتے ہیں‘‘۔
حضرت عمرؓ نے حضرت ابو موسیٰ کو گورنر کے عہدے سے معزول کیا، ٹاٹ کے کپڑے پہنائے، ہاتھ میں چھڑی دی اور بیت المال سے سینکڑوں بکریاں دے کر کہا ’’جاؤ اور اب سے بکریاں چرانا شروع کر دو‘‘۔ ابو موسیٰ ہچکچانے لگے۔ تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’تمہارے باپ دادا یہی کام کرتے تھے، گورنری تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے تجھے ملی تھی‘‘۔ کافی عرصے بعد حضرت عمرؓ جنگل میں گئے جہاں بکریاں چر رہی تھیں۔ حضرت ابو موسیٰ ایک ٹیلے پر ٹیک لگائے زرد چہرے کے ساتھ بیٹھے تھے کوئی پُرسانِ حال نہ تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: سنا ابو موسیٰ! اب بھی تجھے تحائف ملتے ہیں؟ حضرت ابو موسیٰ بولے: کہ حضور مجھے سمجھ آگئی ہے میں اپنے مؤقف پر نادم مجھے معاف کر دیں…!!!
یہ وہ واقع ہے جس کو ہمیں مشعلِ راہ بنانا چاہئے۔