اعلیٰ حضرت شاہ محمد احمد رضا خان بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کے بڑے فرزند اور خلیفہ و جانشین حجۃ الاسلام حضرت مولانا شاہ محمد حامد رضا خان بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت ربیع الاول۱۲۹۲ھ کو ہوئی۔ عقیقہ کے وقت آپ کا خاندانی روایات کے مطابق نام ’’محمد‘‘ رکھا گیا کیوں کہ آپ کی ولادت ۹۲ہجری کو ہوئی تھی اور ۹۲ ہی اس پاک و مطہر نام کے اعداد ہیں اور بعد میں عرفیت حامد رضا تجویز کی گئی۔
آپ نے جملہ علوم و فنون امام اہلسنت اعلیٰ حضرت شاہ محمد احمد رضا خانؒ سے تحصیل فرمائے اور یہی سب سے بڑا امتیازی وصف ہے کہ آپ اعلیٰ حضرت ہی کے شاگردِ رشید ہیں۔ ؎
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابلِ میراث پدر کیوں کر ہو
آپ کی علمی قابلیت اور وسعت، فہم و فراست کا سب سے بہترین ثبوت بھی یہی ہے کہ جس طالبِ علم نے علوم و فنون کے بحر بیکراں سے استفادہ کیا ہو اس کی علمی قابلیت کا اندازہ لگانا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے یہی وجہ تھی کہ آپ نے بہت ہی تھوڑے عرصے میں علوم معقول و منقول میں مہارت و ذکاوت حاصل کرکے والدِ ماجد اعلیٰ حضرت کو ان کے جملہ امور میں معاونت و مدد دینے لگے۔
آپ کے علمی کارناموں میں اَلدَّوْلَۃُ الْمَکِّیہ کے ترجمہ کو خاص اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ اگرچہ یہ کتاب عربی زبان میں ہے جو کہ اعلیٰ حضرت نے اپنے سفرِ حج کے موقع پر ایک مختصر سے عرصہ میں تصنیف فرمائی تھی۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی اس کتاب کو سپردِ قلم کرنے کے بعد اس کے اجزاء اور اوراق آپ کو فراہم کرتے جاتے تھے اور آپ ان کو نظرثانی اور نوک پلک درست فرما کر صاف اور جلی حروف میں تحریر فرماتے تھے بعد ازاں اَلدَّوْلَۃُ الْمَکِّیہ کا ترجمہ بھی آپ نے فرمایا۔ یہ ترجمہ زبان وفصاحت و بلاغت کا شاہکار ہے دوسرے الفاظ میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلویؒ کی حقیقی ترجمانی ہے۔
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے۱۳۴۰ھ میں وصال کے بعد آپ جانشین و خلیفہ بنائے گئے اور تبلیغ و اشاعت دین اور مسلک حقہ اہلسنت و جماعت کا تمام کام آپ کے سپرد ہوا۔ آپ تاحیات اعلیٰ حضرت فاضل بریلویکے افکار اور خیالات کی زبادہ سے زیادہ اشاعت اور توسیع میں حتی المقدور کوشش فرماتے رہے۔ اسی سلسلے میں حجۃ الاسلام مولانا شاہ حامد رضا خان بریلوی حزب الاحناف حناف پاکستان تشریف لائے۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی سے عقیدت و محبت رکھنے والے ملک کے طول و عرض میں حجتہ الاسلام شہزادئہ اعلیٰ حضرت کی زبارت کے لئے لاہور آتے رہے، لاہور کا یہ سفر جہاں دیگرخصوصیات کا حامل ہے وہاں پاکستان کے لئے ایک بڑی گراں قدر علمی دولت کا بھی سبب ثابت ہوا کہ آپ اپنے اس مختصر سے سفر میں محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد لائلپوری (فیصل آبادی) انعام میں عطا فرماگئے۔ واقعات کے مطابق حجۃ الاسلام جس زمانہ میں حزب الاحناف میں قیام فرماتھے اس زمانہ میں لوگ آپ کی زیارت اور استفادہ کے لئے حاضر ہوتے کچھ دیر صحبت و معیت کا فائدہ اٹھاتے اور رخصت ہوجاتے لیکن اسی نشست میں ایک کالج میں فرسٹ ایئر کلاس کا طالب علم جس کا تعلق فیصل آباد سے تھا اول تا آخر خاموش، باادب حاضری دیتا جب حجۃ الاسلام کے آرام کا وقت ہوتا تو سب لوگوں کی طرح یہ بھی اجازت لے کر رخصت ہوجاتا۔ جب حجۃ الاسلام کے وطن واپسی میں ایک یا دو دن باقی تھے ایک روز خود حضرت نے روزانہ حاضر خدمت ہونے والے اس نوجوان سے دریافت کیا کہ میاں صاحبزادے کیا وجہ ہے کہ آپ روزانہ بلاناغہ آتے ہو لیکن ایک جانب خاموش بیٹھ کر چلے جاتے ہو۔ دریافت حال پر سردار احمد نامی نوجوان نے علم دین حاصل کرنے کی خاطر حجۃ الاسلام کے ہمراہ ہندوستان جانے کا ارادہ ظاہر کیا جسے آپ نے نہایت خندہ پیشانی اور وسعتِ قلبی سے منظور فرمالیا نوجوان دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف میں آپ کے زیرسرپرستی علم کی پیاس بجھاتا رہا کچھ عرصہ بعد حجۃ الاسلام نے مزید درس و تدریس کے لئے دارالخیر اجمیر شریف میں صدر الشریعہ حضرت مولانا امجد علی اعظمیؒ کی خدمت میں جانے کا حکم فرمایا۔ علوم و فنون کی تکمیل کے بعد حضرت مولانا سردار احمد صاحب بریلی شریف تشریف لے آتے اور دارالعلوم منظر اسلام میں خدمات انجام دیتے رہے۔ بقول استاد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد نصراللہ خان صاحب جو منظر اسلام بریلی میں حضرت مولانا سردار احمد صاحب کے قابل فخر شاگرد رہے۔ راقم السطور سے یہ واقعہ حضرت مولانا شیر محمد صاحب خطیب اعظم موزمبیق افریقہ مولانا محمد عباس قاسم خطیب جامع مسجد ڈربن اور دیگر اس زمانہ میں المرکز الاسلامی میں زیرتعلیم طلبا کی موجودگی میں ارشاد فرمایا تھا۔ الغرض تقسیم کے بعد ۱۹۴۷ء میں آپ پاکستان تشریف لے آئے اور پاکستان کے مسلمانوں کی قیادت آپ کے حصہ میں آئی۔ فیصل آباد میں آپ نے جس عظیم دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی یہ حجۃ الاسلام حضرت شاہ محمد حامد رضا خان بریلویؒ کے فیوضات و برکات ہی کا تسلسل ہے۔ اس دارلعلوم میں استادِ محترم حضرت مولانا محمد نصراللہ خان صاحب بھی ایک عرصہ خدمات انجام دیتے رہے۔ اس طرح حجۃ الاسلام کا وہ فیض آج بھی ان علماء و فضلاء کے ذریعہ ملک میںانہیں دنیا کے مختلف ممالک میں جاری و ساری ہے۔
اللہ رب العزت نے حضرت حجۃ الاسلام کو دیگر خوبیوں اور محاسن کے ساتھ حسن صورت اور حسن سیرت سے بھی نوازا تھا۔ آپ نہایت خوش آواز و شیریں کلام تھے۔ جب گفتگو فرماتے تو تبسم فرماتے ہوئے لہجہ انتہائی محبت و شفقت آمیز ہوتا یہی وجہ تھی کہ آپ کو ہر ایک مرید اور ملنے والا یہ سمجھتا تھا کہ حضرت سب سے زیادہ مجھے چاہتے ہیں۔ بزرگوں کا احترام چھوٹوں سے شفقت کا برتائو آپ کی سرشت کے گوہر نایاب تھے۔ ہمیشہ نظریں نیچی رکھتے، درود شریف کا بکثرت ورد آپ کی عادتِ ثانیہ بن گئی تھی یہی وجہ تھی کہ آپ کو اکثر سوتے میں بھی درود شریف کا ورد کرتے دیکھا گیا۔
حسن صورت کا یہ عالم تھا کہ لوگ اور باتوں سے قطع نظر صرف صورت دیکھ کر والہ و شیدا بن جاتے تھے۔ ؎
پڑھیں درود نہ کیوں دیکھ کر حسینوں کو
خیال خلفت صانع ہے پاک بینوں کو
آپ اکثر ہندوستان کے دیگر شہروں میں تشریف لے جایا کرتے تھے ایسے ہی ایک سفر میں آپ گوالیارتشریف لے گئے۔ جب تک آپ کا قیام گوالیار میں رہا وہاں کا راجہ بلا ناغہ ہر روزآپ کی زیارت کے لئے آتا تھا اورآپ کے حسن صورت کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتا تھا۔
ایک مرتبہ آپ سفر سے واپس آئے بریلی شریف جنکشن پر آپ جس وقت ٹرین سے باہر تشریف فرما ہوئے اس وقت رئیس الاحرار مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاری بھی اسی گاڑی سے اترے آپ کو دیکھ کر پوچھا یہ کون بزرگ ہیں۔
لوگوں نے بتایا اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے جانشین حضرت مولانا حامد رضا خان بریلوی ہیں۔ یہ سن کر بخاری صاحب نے کہا مولوی بہت دیکھے لیکن ان سے زیادہ حسین و جمیل کسی مولوی کو نہ پایا۔ آپ کی طبیعت انتہائی نفاست پسند تھی یہی وجہ تھی کہ آپ کا لباس آپ کی نفاست و وجاہت کا بہترین نمونہ ہوتا تھا۔
اعلیٰ حضرت فاضل بریلویؒ کے وصال پر جدِّمغفور حضرت علامہ عبدالکریم درس کو محلہ سوداگراں بریلی شریف سے اپنے دستِ مبارک سے خط میں تحریر فرمایا کہ ’’اعلیٰ حضرت کے چہلم کے موقع پر آپ جیسے اساطین ملت و حامیان سنت کی تشریف آوری نہایت ضروری ہے۔‘
جدِّ مغفور کی ۱۹ شعبان۱۳۴۴ھ پر اپنے قلم سے تاریخ وصال عربی فارسی اور اردو میں تحریرفرمائی۔ ’’حضرت مولانا و بکل مجد اولینا ۱۳۴۴ھ‘‘
عربی میں قطعئہ تاریخ رقم فرمایا۔ ؎
اِنْ قُلْتُ مَرْثِیَۃُ بِاسْمِکَ لاَعَجَبْ
عَبْدُ الکریمْ اَلدّرَسْ اُسْتاَذُ الاْدَب
فارسی میں تحریر فرمایا ’’مولائی مکرمی شاہ عبدالکریم اویس‘‘
درس عبدالکریم عبِ کریم۔ کرد جانِ خووش بحق تسلیم
منکران مشائخ و اعراس۔ اہلِ بدعت کلاب نارالیم
دشمنانِ نبی و آل نبیؐ۔ ہمہ لرزاں ازوچوبیدزبیم
امر معروف و نہی عن المنکر۔ کارِ اوبود تاحیات کریم
غم شد وارخ وصل گفت حامد۔ ختم شد ورکراچی درس کریم
اردو زبان میں قطعہ تاریخ لکھا ؎
۱۳۴۴ھ
یاد انیس ماہ شعبان کی۔ دل میں خلاق داغ حسرت ہے
آہ جو عالم حقیقت ہو۔ وہی اٹھ جائے کیا قیامت ہے
دین و دنیا کی دولت و انعام۔ مرقد پاک کی زیارت ہے
زندہ ہیںعلامانِ حق آگاہ۔ ان کی ضرب المثل کرامت ہے
سال ہجری کہا یہ حامد نے حاصل درس درسِ عبرت ہے
یقینا ایسے تمام اکابرین اہلسنت کی رحلت جن کا وجود دوسروں کے لئے باعثِ رحمت ہو قوم و ملت کے لئے ناقابل تلافی نقصان ثابت ہوتا ہے جو حجۃ الاسلام مولانا شاہ حامد رضا خان کے راقم السطور کے جدِّامجد حضرت علامہ عبدالکریم درس کی رحلت پر انہوں نے فرمائے حجۃ الااسلام ایسے ہی بزرگوں میں سے تھے آپ نے ۷۱ جمادی الااولیٰ ۱۳۶۳ھ کی شب عشاء کے وقت عین حالت نماز میں جبکہ آپ درود شریف پڑھ رہے تھے جا جہان آفرین کے سپرد کی۔ نماز جنازہ آپ کے خلیفہ حضرت محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد صاحب ایک مجمع کثیر میں پڑھائی اور تدفین امام اہلسنت شاہ احمد رضا خان بریلویؒ کے دستِ راست عمل میں آئی زندگی میں بھی وہ اعلیٰ حضرت کے دستِ راست رہے اور بعد وصال بھی راست ہی آرام فرما ہیں۔
٭٭٭٭٭٭