ہمارے سیاستدان مخالف سیاسی جماعتوں کو ہر وقت مشورے اور نصیحتیں دیتے رہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے خود کبھی ان چیزوں پر عمل نہیں کرتے جس طرح کے مشورے ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کو دیتے ہیں ان چیزوں پر سب سے پہلے انہیں خود عمل کرنے کی بے حد ضرورت ہوتی ہے ہے دیکھیں کرپشن کی بات کی جائے تو اس حمام میں سب ننگے ہیں کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جس پر کسی بھی حوالے سے کوئی الزام نہ لگا ہو لیکن اس معاملے میں بھی سب سے بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے پر ناصرف الزامات عائد کرتے ہیں بلکہ ہر وقت مفت مشورے بھی دیتے رہتے ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ مشوروں کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہے کیونکہ یہ ساری باتیں اخبارات کےلئے اور اپنے ووٹرز کو متحرک کرنے کےلئے ہوتی ہیں حکمران جماعت عاطف اپوزیشن میں بیٹھی جماعتوں پر کرپشن کے الزامات عائد کر رہی ہوتی ہے اور انہیں ایمانداری کے مشورے دے رہی ہوتی ہے جب کہ عین اسی وقت وہ حکومت میں شامل لوگ نا صرف خود غلط کاموں کا حصہ بن رہے ہوتے ہیں بلکہ مالی اعتبار سے بھی کہیں نہ کہیں ہاتھ صاف کر رہے ہوتے ہیں۔حکومت میں آ کر بلکہ صرف حکومت میں ہی نہیں سیاست میں آ کر بھی لوگوں کے کاروبار پھیلے ہیں، بینک بیلنس بڑھے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جائیداد میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود سب ہر ناکامی ہر برے کام اور معاشرے میں پھیلی ہر برائی کا ذمہ دار صرف مخالف سیاسی جماعت کو ہی ٹھہراتے ہیں حالانکہ گذرے لگ بھگ پینتیس برس کے دوران کوئی ایسی سیاسی جماعت باقی نہیں بچی جس نے حکومت کا مزہ نہ لیا ہو لیکن اس کے باوجود خرابی کا ذمہ دار ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔ کوئی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ اس کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ملک و قوم کو نقصان ہوا ہے بلکہ سب ایک دوسرے کو ہی نشانہ بنانے اور نصیحتیں دینے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جتنی توجہ الزامات عائد کرنے اور مشورے دینے پر ہوتی ہے اگر اس کا کچھ حصہ بھی کام کرنے اور آئین و قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے میں میرٹ پر تقرریاں کرنے پر ہوں تو مسائل کم ہی نہیں بلکہ ختم بھی ہو سکتے ہیں۔
اب ہمارے صدر صاحب کو ہی لے لیں وہ پاکستان تحریک انصاف کے اہم رکن ہیں۔ ملک کے صدر ہیں لیکن اپنی جماعت کے ہاتھوں شاید مجبور ہیں۔ وہ سیاستدانوں کو سیاسی تقسیم کم کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اس سیاسی تقسیم سے تلخیوں اور شدت پسندانہ سوچ میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن کیا وہ قوم کو یہ بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے اس سلسلے میں اپنی جماعت کے سرکردہ لوگوں سے کیا بات چیت کی ہے اور انہوں نے اس حوالے سے کیا جواب دیا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ اسحاق ڈار صدر پاکستان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور کوئی درمیانی راستہ یا مفاہمت یا پھر بات چیت شروع کرنے کے حوالے سے معاملات زیر غور ضرور ہیں لیکن جہاں تک صدر صاحب کے مشوروں کا تعلق ہے اس سلسلے میں انہیں سب سے پہلے اپنی جماعت کے لوگوں سے بات چیت کرنے، انہیں قائل اور مائل کرنے کی ضرورت ہے اگر ان کی اپنی جماعت کے لوگ ہی قائل نہیں ہوتے زبان بندی نہیں کرتے غیر ضروری بیانات سے گریز نہیں کرتے، بولنے سے پہلے سوچتے نہیں اور الزامات لگانے کا سلسلہ ترک نہیں کرتے، لوگوں کو غیر ضروری طور پر برا بھلا کہنے اور نامناسب انداز میں بلانے سے باز نہیں آتے تو تلخی اور شدت کیسے کم ہو سکتی ہے۔
سیاسی تقسیم کم کرنے کے لئے سب سے پہلے سیاستدانوں نے اپنے رویوں پر غور کرنا ہے اپنی زبان پر قابو رکھنا ہے اگر آج ملک میں سیاسی تقسیم نظر آرہی ہے اور اس حوالے سے شدت پائی جاتی ہے تو صدر پاکستان کو یہ بھی ضرور دیکھنا چاہیے کہ اس معاملے میں سب سے زیادہ منفی کردار کس جماعت نے ادا کیا ہے اور آج اگر سیاسی تقسیم انتہا پر ہے اس کی ذمہ داری کس پر زیادہ عائد ہوتی ہے اور جس کا حصہ زیادہ ہے قربانی بھی اس کو ہی زیادہ دینی چاہیے۔ موجودہ دنوں میں ملک میں سیاسی طور پر شدت پسندی نظر آتی ہے تو اس کی بڑی وجہ بلکہ سب سے بڑی وجہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماو¿ں کا نامناسب رویہ اور نامناسب انداز گفتگو ہے وہ گفتگو کرتے ہوئے بالکل نہیں سوچتے کہ کس کے بارے میں کیا بات کر رہے ہیں، کیا بات کر رہے ہیں اور جو بات کر رہے ہیں اس کا حقیقت سے کوئی تعلق بنتا بھی ہے یا نہیں اس کی شدت کم کرنے کے لیے معاملے میں پاکستان تحریک انصاف کو دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت زیادہ کام کرنے اور زیادہ تحمل مزاجی کی ضرورت ہے۔ ان کی حکومت پہلی مرتبہ ختم ہوئی ہے جبکہ ملک میں بڑی سیاسی جماعتیں ایک سے زیادہ مرتبہ اس تجربے سے گزر چکی ہیں اس لیے بہتر جمہوری مستقبل اور عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے سب سے اہم تحمل مزاجی ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ مسائل ان سیاسی جماعتوں کے پھیلائے ہوئے ہیں، اگر بدانتظامی ہے تو یہ دو بڑی جماعتیں کیسے خود کو بری الذمہ قرار دے سکتی ہیں۔ انہیں بھی عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو طعنے دینے کے بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ انیس سو پچاسی سے آج تک کس کس نے حکومت کی ہے اور اس کا کیا نتیجہ نکلا ہے۔ رانا ثناءاللہ ایک اہم اور بڑے عہدے پر ہیں وہ صرف پی ڈی ایم کے ووٹرز یا حمایتیوں کے وزیر داخلہ نہیں۔ ان کی نظر میں سب کو برابر ہونا چاہیے اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان بارے نامناسب الفاظ استعمال کرنے کا حق کسی کو نہیں ہے۔ سیاسی تقسیم کم کرنا خود سیاستدانوں کے حق میں ہے ورنہ کوئی بھی عوام میں جانے کے قابل نہیں رہے گا۔
صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے معاملے میں پاکستان تحریکِ انصاف کے اندر اختلاف رائے ہے اور اراکینِ اسمبلی کو دیکھا جائے تو ان کی سوچ کسی حد تک درست ہے کیونکہ اراکین انتخابات کے سال میں اپنے حلقوں کے ترقیاتی منصوبوں پر توجہ دیتے ہیں اور اس معاملے میں وہ آئندہ کو سامنے رکھتے ہوئے کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ آخری سال ہے اور پی ٹی آئی کے اراکینِ اسمبلی اس لیے اسمبلیوں کی تحلیل کے مخالف ہیں جب کہ عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے منتخب اراکین کی ضرورت نہیں ہے یوں یہ بنیادی اختلاف ہے۔ اگر کسی سیاسی جماعت کا سربراہ اس مشق کو غلط سمجھتا ہے تو پہلے اسے متبادل نظام دینا چاہیے تاکہ عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ نہ ہو اگر پانچ سال میں ایک مرتبہ حلقے کے لوگوں کے کام ہو جائیں تو اس میں کیا قباحت ہے۔ بہرحال پہلے بھی لکھا تھا کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے معاملے میں کسی بھی وقت یو ٹرن لیا جا سکتا ہے اور شاہ محمود قریشی، فواد چودھری اور پرویز خٹک یا چند اور اہم افراد پر مشتمل کمیٹی موجودہ حکومت سے مذاکرات کرتی نظر آ سکتی ہے۔