’’عمران خان جب کہیں گے میں اْسی وقت اسمبلی توڑ دوں گا آدھا منٹ بھی نہیں لگائوں گا‘‘ 26نومبر(عمران خان کی طرف سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان) کے بعد سے اب تک وزیر اعلیٰ پ چوہدری پرویز الہٰی کا یہ بیان متعدد مرتبہ ہم نے ٹی وی پر سنا اوراخبارات میں پڑھا ۔یہ بھی شنید ہے کہ انہوں نے اسمبلی توڑنے کی سمری دستخط کر کے عمران خان کے حوالے کر دی ہے۔ دریں اثناء خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ محمود خان بھی اسی قسم کے بیانات دے رہے ہیں کہ یہ اسمبلی عمران خان کی امانت ہے وہ جب چاہیں گے ہم اسے توڑ دیں گے ۔اسی دوران سندھ اسمبلی کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس کے ارکان پی ٹی آئی نے اپنے استعفیٰ پارلیمانی لیڈر کے پاس جمع کرادیئے ہیں۔ جو اصولاً سپیکر کو جمع کرائے جانے چاہیں تھے۔ بہرحال اس سب کچھ کے باوجود اور بارہ دن گزرنے کے بعد بھی معاملہ ابھی تک بیان بازی تک محدود ہے اور عمران خان پشمان ہیں کہ وہ جلد بازی میں کیا کر بیٹھے لیکن ان کی یہ زود پشیمانی اب کس کام کی۔ بہتر ہوتا کہ وہ اس سے پہلے ارکان اسمبلی سے مشورہ کر لیتے۔ جیسا کہ وہ اب (بعد از وقت) کر رہے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ دونوں اسمبلیوں (پنجاب اور کے پی کے) کے ارکان کی اکثریت اسمبلیوں کی تحلیل یا ان سے مستعفی ہونے کے حق میں نہیں۔( اس بات کا اعتراف خود خان صاحب بھی اپنے ایک بیان میں کر چکے ہیں) اور اس سلسلے میں ان کے دلائل بھی کافی حد تک معقول ہیں کہ یہ الیکشن کا سال ہے۔ اس سال انہیں آئندہ انتخابات کیلئے اپنا ووٹ بنک بنانا ہے۔ اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈ حاصل کرنے ہیں جو کچھ خود کھانے ہیں کچھ ووٹرز سپورٹرز کو کھلانے ہیں۔ دوسرا اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ ان اسمبلیوں کے دوبارہ الیکشن میں بھی منتخب ہوجائیں گے۔ ہوسکتا ہے ان کے مقدر میں کامیابی نہ ہو تو وہ چمکتے دمکتے حال کو چھوڑ کر ممکنہ تاریک مستقبل کی طرف کیوں جائیں۔ اپنے اقتدار کا ایک سال کسی شخص کی انا ء پر کیوں قربان کریں۔
جہاں تک وزرائے اعلیٰ کا تعلق ہے محمود خان نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا ہوگا کہ وہ اپنے صوبے کے بڑے منصب پرہونگے ۔ دوسرا انہوں نے اپنی جماعت (تحریک انصاف) کے ایک مقبول اور دبنگ لیڈر پرویز خٹک کو پچھاڑ کر یہ عہدہ پایا ہے ۔چنانچہ وہ اس سے دستبردار ہونا کیوں پسند کریں گے۔ رہے چوہدری پرویز الہٰی تو انہوں نے واضح طور پر بتا دیا ہے کہ سرِ دست چار ماہ تو اس حوالے سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ اور اس سلسلے میں ان کا استدلال یہ ہے کہ ان کے بہت سے عوامی منصوبے پائپ لائن میں ہیں جو اسمبلی تحلیل ہونے سے نامکمل رہ جائیں گے اور اس کے نتیجے میں ان کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچے گا جس کے وہ آئندہ الیکشن میں متحمل نہیں ہوسکیں گے۔ ایک تجزیہ نگار نے اس حوالے سے بڑی قابل غور بات کہی ہے کہ کیا پرویز الہٰی صرف دو ماہ کیلئے وزیر اعلیٰ بننے آئے تھے۔
دریں اثناء پی ٹی آئی اور ق لیگ میں بڑھتے ہوئے اختلافات بھی محلِ نظر ہیں جن کا آغاز عمران خان پر مبّینہ قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج نہ ہونے سے ہوا تھا۔ اب سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے خلاف تحریک انصاف کی مخالفانہ مہم نے انہیں عروج پر پہنچا دیا ہے۔ جہاں تک چوہدری پرویز الہٰی کے فرزند مونس الہٰی جن کے پْرزور اصرار پر چوہدری پرویز الہٰی پی ڈی ایم کے ساتھ کیے گئے معاہدے سے منحرف ہو کر عمران خان کی درگاہ پر سجدہ ریز ہو گئے تھے، بھی پی ٹی آئی پر تنقید کرنے لگے ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ دونوں جماعتوں میں دوریاں پیدا ہوں گی۔ عمران خان اور چوہدری پرویز الہٰی کے مابین فاصلے بڑھیں گے اور ایک دن وہ ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے۔ ان حالات میں عمران خان کیا کریں گے۔ ہمارے خیال میں انہیں چوہدری شجاعت حسین کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کر لینی چاہیے۔ دو بڑے مل کر بیٹھیں گے تو وطن عزیز کے موجودہ سیاسی بحران کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا بشرطیکہ خان صاحب حسبِ سابق فوری انتخابات کے مطالبے پر یوٹرن لے لیں۔ اس طرح یہ بات درست ثابت ہوجائے گی کہ کچھ یوٹرن اچھے بھی ہوتے ہیں۔
اسمبلیاں کب ٹوٹیں گی؟
Dec 10, 2022