فضا ساری معطّر ہو گئی ہے
یہ خوشبو کس طرف سے آ رہی ہے
سکوں کی نیند سونے دو مجھے اب
بہت آرام میں اب زندگی ہے
چراغِ قبر روشن کر رہے ہو
لحد میں روشنی ہی روشی ہے
یْونہی سجدے پہ سجدے کر رہے ہیں
وگرنہ کیا ہماری بندگی ہے
نہ کر چاکِ گریباں کی نمائش
کہ یہ توئینِ رسمِ عاشقی ہے
زیارت گاہِ اہلِ دل ہے لوگو
یہ قبرِ خستہ حالِ جعفری ہے
ڈاکٹر مقصود جعفری