انتخابات کے شیڈول کا انتظار

ملکی صورتحال گو مگو کا شکار ہے ، آئینی اور قانونی بحران شدت اختیار کر چکا ہے ، آئین و قانون کی پامالی ہر سطح پر دکھائی دیتی ہے ، عوام بے آسرا مہنگائی کی چکی میں پستے چلے جا رہے ہیں لیکن اربابِ اختیار کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ،پٹرول کی قیمتیں کم ہونے سے بھی روز مرہ کی اشیاء سستی ہوئیں اور نہ ہی پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی ہوئی ، اس معاملے پر حکومتی سطح سے کمی کی صدائیں ہی بلند ہوئیں لیکن کسی نے کان نہ دھرا ، اور غریب عوام اس امید پر سسکیاں لیتے رہے کہ حکومت مہنگائی کم کردے گی جو کہ نہ ہوئی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدر مملکت سے مشاورت کے بعد سارے ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 8فروری 2024ء کو منعقد کروانے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں 90روز کی مدت میں انتخابات کے کیس کو نمٹاتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے متنبہ کیا تھا کہ اگر الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کئے گئے تو ایسا کرنے والے آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے جائیں گے ، چیف جسٹس کے انتباہ ،الیکشن کمیشن کی انتخابی تیاریوں اور وفاقی وزارت ِ خزانہ کی طرف سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 17ارب40 کروڑ روپے کے مزید فنڈ جاری کرنے کے باوجود عام انتخابات کے انعقاد کے بارے میں کیوں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں ،جو کہ معنی خیز بھی ہیں اور پسِ پردہ عوامل کی نشاندہی بھی کر رہی ہیں۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ آئین میں اسمبلیاں تحلیل ہونے کے تین ماہ کی مدت میں الیکشن کروانا ضروری ہیں ، لیکن نگراں حکومت کی مدت طویل ہوتی جا رہی ہے، کچھ سیاسی جماعتیں عوامی سطح پر یہ تاثر دے رہی ہیں کہ وہ الیکشن کے لئے تیار ہیں لیکن ان پارٹیوں کی اندرونی حقیقت کا اندازہ ان کی انتخابات میں عدم دلچسپی سے لگایا جاسکتا ہے ، کچھ سیاسی پارٹیوں کا خیال ہے کہ ابھی الیکشنوں کے لئے بہت وقت ہے الیکشن شیڈول آنے پر ہی عوامی اجتماعات ہوں گے ، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے تو واضح طور پر کہا ہے کہ ہم انتخابات میں ہر وقت جانے کے لئے تیار ہیں ،لیکن انتخابات کے لئے ماحول فراہم کرنا چاہئے ، انہوں نے سوال کیا کہ دو صوبوں میں دہشت گردی کی وجہ سے بد امنی ہے ، اس صورتحال میں انتخابی مہم چلائی جا سکتی ہے؟۔
دوسری طرف سینٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے انتخابات میں تاخیر کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ عام انتخابات 8 فروری کو ہی ہونے چاہئیں ، بصورتِ دیگر 12 مارچ 2024ء سے سینٹ غیر فعال ہو جائے گی ، نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے انتخابات پر شکوک و شبہات کے حوالے سے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ 8 فروری کو ملک میں عام انتخابات ہوں گے ، اس حوالے سے قوم میں شکوک و شبہات نہیں ہونے چاہئیں ، شک غیر ضروری ہے، نگران وزیر اعظم اور الیکشن کمیشن کی یقین دہانیوں کے باوجود خدشات کی نسبت یقین دہانیاں کم نظر آتی ہیں ،جو کہ ایک سیاسی بیانیہ بن چکا ہے ، ملکی سیاسی نظام ہمیشہ سے غیریقینی بیانیہ کی تصویر کشی کرتا رہاہے ، یہی وجہ ہے کہ اس وقت سارے ملک میں مقامی سطح پر انتخابات کے حوالے سے ویسی سرگرمیاں دیکھنے میں نہیں آرہیں ، جیسا کہ ماضی میں دیکھا گیا ، الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بلوچستان میں عام انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے دو درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ درخواستوں میں صوبے کی سیکورٹی صورتحال کے علاوہ فروری میں برف باری کے سبب انتخابات برف باری کے بعد تک کرانے کی استدعا کی ہے۔
حالیہ انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد سیاسی سرگرمیوں پر مبنی صورتحال انتہائی سرد ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابات کے لئے تیار نہیں اور تاخیر چاہتی ہیں ، تجزیہ کاروں کیمطابق ملک میں اگر معاشی بہتری آتی ہے تو ممکن ہے کہ انتخابات التوا کا شکار ہو جائیں ، مزید یہ کہ سیاسی بازیگر انتخابات کو اپنے مفاد سے منسلک کر رہے ہوں اور انہیں یہ خدشہ بھی لاحق ہو کہ وہ عوام کی پذیرائی حاصل کر سکتے ہیں کہ نہیں ، خیر ہر شخص اپنا ایک نقطہ نظر رکھتا ہے۔ معاشی بہتری تو جمہوریت کے لئے تقویت کا باعث بنتی ہے اس کا انتخابات کی ٹاخیر سے کیا واسطہ۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ چند سیاسی بازیگر عوام کا سامنا کرنے سے گریزاں ہوں جنہیں عوامی حمایت حاصل ہونے کا یقین نہیں۔
اس امر کا عیاں ہونا بھی ایک لمحہء فکریہ ہے کہ جوں جوں انتخابات کی تاریخ قریب آرہی ہے ، سیاسی جماعتیں تاخیری حربے استعمال کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ایم کیوایم اور مسلم لیگ (ن) نے حلقہ بندیوں پر اعتراضات اٹھا دیئے ہیں۔ کنوینر ایم کیو ایم نے حلقہ بندیوں پر اعتراضات پر الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو یکطرفہ اور ہائی ڈیزائین قرار دے دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) سندھ کے صدر نے عدالت سے رجوع کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔ اسی تناظر میں مسلم لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق کا بیان انتہائی معنی خیز ہے کہ پی ٹی آئی کو الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہئے ، جبکہ پی ٹی آئی کی طرف سے ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ 
اسلام آباد ہائیکورٹ میں حلقہ بندیوں کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے الیکشن شیڈول کب دیا جا رہا ہے ، مختلف لوگوں نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے لوگوں کو فرسٹریٹ نہ کریں ، وکیل الیکشن کمیشن نے الیکشن شیڈول کے بارے میں جواب دینے کے بجائے کہا کہ الیکشن کمیشن تو اس کورٹ کی ڈسپوزل پر ہوتا ہے، جب عدالت بلاتی ہے آجاتے ہیں ،اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہی انتخابات کے شیڈول کو رکوانے کے لئے درخواست دائر ہوئی ہے ،انتخابات میں تاخیر معنی خیز بنتی جا رہی ہے، جس سے پسِ پردہ عوامل میں ’’اپریشن کلین اپ‘‘ مکمل ہونے تک انتخابات میں تاخیر کا عندیہ ملتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...