شہباز شریف جہانگیر ترین میں ملاقات۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اتفاق ہو گیا۔
مسلم لیگ نون کسی پارٹی سے اتحاد کر رہی ہے کئی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور کسی کو دریا کے سمندر میں اْتر جانے کی طرح اپنے اندر سمو اورسمیٹ رہی ہے یعنی ضم کر رہی ہے۔گویا انتخابات سے قبل ہر ورائٹی اس کے ہاں موجود ہے۔ نواز لیگ کے دائمی اتحادی تو مولانا ساجد میر جمعیت اہل حدیث والے ہیں۔ گرمی ہو سردی ہو سختی ہو نرمی ہو یہ جمعیت لیگ سے جڑی رہتی ہے، نتھی رہتی ہے۔ باپ کبھی کسی کی مِتر بنتی ہے اب ضم ہو کر مسلم لیگ نون کی پْتر بن گئی ہے۔متحدہ نے کتنے اتحاد کئے؟ جتنی پارٹیاں اقتدار میں آئیں اس سے دوگنا۔ اب مسلم لیگ نون سے اتحاد کیا ہے۔متحدہ والے انسانیت کے ناطے زخم بھلا دیتے ہیں، دکھ درد دینے والوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ جسے دشمن کہتے ہیں اس سے سب کچھ فراموش کر کے دوستی کر لیتے ہیں۔ بڑے دل اور اس سے بڑی دانش رکھتے ہیں۔ نواز لیگ کے ایک بار پھر اتحادی بن گئے۔ پیپلز پارٹی سے ایک بار پھر اتحاد مْکا دیا۔کْٹی کرلی۔ صرف پی ٹی آئی پر ایک بار اب تک اعتبار کیا۔ ان کے کنڈکٹ اور ریکارڈ کے مطابق آخری نہیں تھا۔ مسلم لیگ نون ہراس پارٹی کے لیے دیدہ فراش راہ ہے جو اتحاد کے لیے ہاتھ بڑھاتی ہے۔ انس نورانی سے بھی اتحاد کیا ہے ،سیٹ ایڈجسٹمنٹ کتنی سیٹوں پر کس کس صوبے میں ہوگی؟ ق لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو چکی ہے۔اندر کی خبر کوئی باہر لایاہے، چوہدری شجاعت حسین نے بڑے مان اور کچھ گیان سے کہا میاں صاحب چیمے نے ہمارا بڑا ساتھ دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں امیدوار کھڑا نہ کریں تو میاں صاحب نے بقول تھیلی سے بلی باہر لانے والے کے، کہا ،دیکھاں گے!۔ اتنی سیٹ ایڈجسٹمنٹیں یہ نہ ہو کہ اپنے امیدوار راہ تکتے رہ جائیں۔ مگر اتنے بھی سادہ نہیں ہیں میاں صاحب ،ایویں تو بندہ چوتھی بار وزیراعظم نہیں بن جاتا۔
٭…٭…٭
انتخابات شفاف نہ ہوئے تو نتائج تسلیم نہیں کریں گے، نثار کھوڑو۔
اگر کوئی بے چِنت ہو کر شرط لگا سکتا ہے تو انتخابات میں دھاندلی پر لگا دے بلکہ انتخابات سے قبل، انتخابات کے دوران اور بعد از مرگ کی طرح بعداز انتخابات دھاندلی کی قسم بھی کھا سکتا ہے۔ نثار کھوڑو پیپلز پارٹی کے پرانے جان نثار ہیں،سیدقائم علی شاہ صاحب جتنے بھی قدیم نہیں۔ ان کو کیسے شک ہو گیا کہ انتخابات میں دھاندلی ہو سکتی ہے -ان تک کوئی اندر کی خبر پہنچی ہے یا اپنی حریف و حلیف پارٹی کی خوابیدہ اونچی اڑان دیکھ کر شبہ ہوا ہے ؟ان کا یہ بیان ٹی وی چینلز پر چلا ہے۔ انہوں نے احتیاطاً انتخابات کے انعقاد پر شک ظاہر نہیں کیا کیونکہ میڈیا میں ایسا کرنے پرعدالتی پابندی ہے۔ اونچی اڑان والی پارٹی سے منسوب کیا جا رہا ہے کہ اس کی اوپر بات ہو چکی ہے۔2013ء کے الیکشن کے بعد ہر پارٹی حکومت کا حصہ بنی اور ہر پارٹی نے دھاندلی کا الزام بھی لگایا۔نون لیگ کی مرکز پنجاب اور بلوچستان میں تو لرزتی لہراتی حکومت بھی بنی تھی۔ بلوچستان میں ایک مدت میں تین وزیراعلی بنے۔نواز لیگ کی طرف سے سندھ میں دھاندلی کا الزام لگایا گیا۔ اس دور کے چیف جسٹس صاحب مِٹھی میں میٹھی میٹھی میٹگیں کرنے جاپہنچے۔ آراوز سے ملاقاتیں کرتے بتائے گئے۔ پیپلز پارٹی ان انتخابات کو آر اوز کا الیکشن کہتی تھی۔ تحریک انصاف دھاندلی کا سب سے زیادہ واویلا کرتی رہی جس نے کے پی کے میں جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی۔ہر پارٹی اقتدار میں بھی اور دھاندلی کا الزام بھی، واہ کیاکہنے!
کوئی بھی پارٹی نتائج تسلیم نہیں کرے گی تو کیا کرے گی؟ اسی تنخواہ پر کام جاری رہے گا .دو چار روز کا سیاپا پھر زندگی معمول پر آجاتی ہے۔الیکشن وہی شفاف جس میں ہم جیتیں۔2018 ء میں تو آر ٹی ایس ہی بیٹھ گیا۔ہارنے والے الزام لگاتے ہیں، ہمیں ہرانے کے لیے بیٹھا۔جیتنے والے اپنی جیت محدود کرنے کی قسم کھاتے ہیں۔
٭…٭…٭
کریک ڈاؤن میں 40 ہزار کلو سے زائد چرس برآمد سینکڑوں گرفتار۔
آج کل پورے ملک میں منشیات کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔کسی سے ماشہ،کسی سے تولہ، کسی سے پاؤ، کسی سے سیر سوا سیر اور کسی سے من دو من چرس برآمد کی گئی ہے۔اب تک 40 ہزار7سو 64 کلو برآمد ہو چکی ہے۔ اتنی زیادہ مقدار کا سن کر پْڑی دو پْڑی کو ترسنے والے رشک کرتے ہوں گے۔ ویسے ان کے پاس رشک کرنے کا وقت ہی کب ہوتا ہے۔ سوٹا لگایا خوابوں میں خیالوں میں ساتویں آسمان پر اڑنے لگے، واپس لینڈ کیا تو پْڑی کی پڑ گئی، سوٹے کی تلاش شروع کر دی۔ مسجد کی ٹوٹی اْتاری ،موٹر سائیکل کا شیشہ نکالا ،ڈھابے سے کپ گلاس اٹھایا، گٹر کا ڈھکن چرایا اور وہ تو قسمت کا دھنی ہے جس کے ہاتھ کسی کا موبائل آیا۔ایک نشئی کے پاس زیادہ پیسے آگئے تو نئے جوتے خرید لیے۔ سوٹا لگایا بے خود ہوا تو سڑک کنارے ٹانگیں پسار کر جنت کے ہلارے لینے لگا۔ ریڑھی والے نے کہا ٹانگیں پیچھے کرلو۔اس نے تھوڑی سی آنکھیں واکیں، پاؤں کی جانب دیکھا، نئے جوتے اتار کر کوئی ٹوٹی چپل پہنا گیا تھا۔ مدہوشی میں شانِ بے نیازی سے بولا "میرے پیر نہیں ہیں۔ گزار دو گاڑی "۔ ہمارے ہاں کیا کیا لوگ پائے جاتے ہیں ایسے نابغے جن کو کوئی کام کہو تو موت نظر آنے لگتی ہے۔ ابن صباح کی جنت کے متلاشی رہتے ہیں۔ آوارہ گردی سے تھک جائیں تو سو جاتے ہیں سو سو کے تھک جائیں تو سوٹا، جھولے لال۔کوئی کام کہو جواب آتا ہے ، تنگ نہ کر۔
حجلہ گور میں سامان عروسی ہوگا
لاش آرام سے سوئے گی سہاگن بن کر
٭…٭…٭
انڈر پاسز کی تعمیر و آرائش میں تاخیر پر کورٹ برہم ،تکمیل کے لیے 25 دسمبر بہت دور ہے۔
لاہور میں انڈر پاسز کی زلفیں سنواری جا رہی ہیں ،آئی شیڈ لائنر مسکارا سرخی پاؤڈر غازہ استعمال ہو رہا ہے۔گویا دلہن کو تیار کیا جا رہا ہے۔ نو انڈر پاسز پر ایک ساتھ کام شروع ہے’’ اکو واری مکائو‘‘۔ زیادہ تر نہر سے متصل انڈر پاسز ہیں۔ٹریفک کی حالت یہ ہوتی ہے کہ ایک سے نکلی تو دوسرے میں پھنسی۔ اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے قوموں کو بڑی قربانی دینا پڑتی ہے۔انڈر پاسز خوبصورت ہو جائیں گے جگمگ کریں گے۔ اس کازکے لیے اگر قوم کو تھوڑا سا وقت دینا پڑتا ہے تو کیا ہو گیا ،تھوڑی سی دھول پھانک لی ،سر میں گھٹا پڑ گیا، گلے آنکھوں میں دھواں چلا گیا تو کون سی قیامت آگئی۔ سموگ بھی تو برداشت کرتے ہیں۔ انڈر پاسز کی زیبائش تزئین و آرائش جگمگ میں اضافہ ہوگا۔یہ اعلیٰ قومی مقاصد میں سے ہے۔انتظامیہ اپنا وقت دے رہی ہے،کَھپ رہی ہے۔ پیسہ لگا رہی ہے اس کو شاباش دینے کی بجائے سرزنش جچتی نہیں۔ ویسے آرائش کی ضرورت کیوں پڑی۔ دیواروں کی ٹائلیں اکھاڑ کر نئی لگائی جا رہی ہیں۔پرانی ٹائلوں کو کھانسی ہو گئی؟ ڈینگی ہو گیا، نوزی بہنے لگی تھیں، لولی لنگڑی اندھی بہری ہوگئی تھیں؟ کہیں سے ٹائل اکھڑ جائے تو نئی لگا دیں۔ انہیں کو دھو دیا جائے تو لش پش لوٹ آتی ہے مگر پیسہ بہت ہے۔ کہیں تو لگانا ہے۔ نہر کے ساتھ میلوں خوبصورت ریلنگ لگائی گئی تھی۔ بس ریلنگ لگائی اور پھر بھلائی۔ جہاں ڈنٹ پڑ گیا وہیں لقوے کی طرح ریلنگ ٹیڑھی ہوگئی باہر سے گاڑی وغیرہ ٹکرائے تو پائپ اندر کو مڑ جاتے ہیں یہاں باہر کو سڑک کی طرف کْب نکلے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ اندر سے کیا ٹکرایا ہوگا۔28 دسمبر بھی آ ہی جائے گی۔ قافلہ چل پڑا ہے رینگے بھی تو بھی منزل پر پہنچ ہی جانا ہے۔
اتوار ‘ 25جمادی الاول 1445ھ ‘ 10 دسمبر 2023ء
Dec 10, 2023