اظہار رائے کی آزادی ! نگران وزیراعظم کی حقیقت بیانی

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کو آزادی اظہار رائے کا حق حاصل ہے۔ آزادی اظہار رائے کو مثبت اور تعمیری ہونا چاہیے۔ گزشتہ روز آغاخان یونیورسٹی کراچی میں طلبہ کے ساتھ خصوصی نشست میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں حکومت میں آتا ہوں تو مجھے اظہار رائے کی آزادی زہر لگتی ہے اور کسی دوسرے کو حکومت مل جائے تو اسے بھی آزادی اظہار رائے زہر لگے گی۔ انکے بقول آج کے تمام مظلوم کچھ سالوں پہلے تک ظالموں کی قطار میں چل رہے ہوتے تھے‘ ریاست میں احتساب کا نظام موجود ہے‘ ریاست میں قانون پر عملدرآمد کا طریقہ بھی موجود ہے جسے بروئے کار لانا ہمارا مطمع نظر ہے۔ ہمارے ملک کی اپنی ایک تاریخ ہے جس پر گھنٹوں بات کی جاسکتی ہے۔ ہمیں سماج اور سوسائٹی میں مواقع پیدا کرنا ہونگے۔ انکے بقول تعلیمی ادارے ہمیشہ انکے دل کے قریب رہے ہیں‘ انہیں چیزوں کے بارے میں جاننے اور سمجھنے میں خوشی ہوتی ہے۔ زندگی بامقصد بنانے کیلئے تعلیم ضروری ہے۔ برٹش راج ایک دن میں نہیں بنا‘ اسے ڈیڑھ سو سال لگے تھے۔ 
بے شک آئین پاکستان میں شہری آزادیوں کو تحفظ حاصل ہے اور بالخصوص آئین کی دفعات 18‘ 19 میں ہر شہری کیلئے کاروبار‘ جماعت اور تنظیم سازی اور اظہار رائے کی مکمل آزادی کی ضمانت فراہم کی گئی۔ دفعہ 19 میں تحریر و تقریر کی مکمل آزادی کا خصوصی تذکرہ ہے اور اسی آرٹیکل کی ذیلی شق میں اظہار رائے کی آزادی کو ملک کی سلامتی‘ خودمختاری‘ شعائر اسلامی اور ریاستی اداروں بشمول عدلیہ اور افواج پاکستان کے بارے میں کوئی منفی پراپیگنڈا نہ کرنے کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ چنانچہ کوئی ذمہ دار شہری اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے متعینہ حدود سے تجاوز کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ بطور خاص پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو آئین کی دفعہ 19 میں متعین کردہ پیرا میٹرز کے علاوہ متعدد قانونی ضوابط کی پابندی بھی کرنا ہوتی ہے اس لئے اظہار رائے کی آزادی کے شتربے مہار استعمال کی کوئی گنجائش ہی نہیں نکل سکتی۔ اس تناظر میں اظہار رائے اور آزادی صحافت کے تحفظ و دفاع کی میڈیا کی اپنی ذمہ داری ہے اور میڈیا نے ہمیشہ یہ ذمہ داری خوش اسلوبی سے نبھائی ہے۔ اسکے برعکس اظہار رائے کی آزادی کے معاملہ میں حکمرانوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں جنہیں جس حد تک یہ آزادی سوٹ کرتی ہے‘ وہ اسے قبول کئے رکھتے ہیں اور جب انہیں اظہار رائے کی آزادی وارا نہیں کھاتی تو اسے دبانے کیلئے جابرانہ قانون وضع کرنے اور مختلف ریاستی ہتھکنڈے استعمال کرنے میں ذرہ بھر دیر نہیں لگاتے۔ اس تناظر میں ہماری تاریخ پریس اور میڈیا پر حکومتی پابندیوں کی مثالوں سے  بھری پڑی ہے۔ اس کیلئے جرنیلی آمریتوں کے ادوار میں ہی نہیں‘ سول حکومتوں کی جانب سے بھی پریس اور میڈیا کی آزادی پر قدغنیں لگانے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ ایوب خان کے دور میں پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس کے ذریعے پریس کی آزادی پر تلوار لٹکائی گئی تو ذوالفقار علی بھٹو کی سول آمریت کے دوران بھی آزادی صحافت کیلئے کئی جید صحافیوں کو پابند سلاسل ہونا پڑا۔ جنرل ضیاء الحق کا دور آزادی صحافت پر پابندیوں کے معاملہ میں بدترین دور سمجھا جاتا ہے جب مارشل لاء ضوابط کے تحت اخبارات پر سنسرشپ عائد کی گئی جبکہ آزادی صحافت و اظہار رائے کے معاملہ میں بے نظیر بھٹو‘ میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کے ادوار بھی خوشگوار ادوار ثابت نہ ہوئے اور کم و بیش ہر حکمران نے اپنی مرضی کا سچ تحریر و تقریر کی شکل میں سننے کی روش اختیار کئے رکھی ہے جبکہ اہل صحافت اور میڈیا کمیونٹی نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے اور مالی قربانیاں دیتے ہوئے آزادی صحافت کا پرچم تھامے رکھا ہے اور اس پر کوئی حرف نہ آنے دینے کے عزم پر کاربند رہی  ہے۔ 
جنرل پرویز مشرف کے دور میں اگرچہ نجی ٹی وی چینلز کا راستہ کھول کر اظہار رائے کی آزادی کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی گئی مگر اسی دور میں انسداد دہشت گردی ایکٹ میں بعض اضافی شقیں شامل کرکے آزادی صحافت کا گلا گھونٹنے کی بھی کوشش کی گئی جبکہ آزادی صحافت کیلئے آواز اٹھانے کی پاداش میں نوائے وقت کو اسی دور میں سرکاری اشتہارات کی سالہا سال بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ آصف علی زرداری کے دور میں تو ایک ٹی وی چینل پر باقاعدہ دھاوا بولا گیا جبکہ میڈیا ہائوسز کو جبر و تشدد کے ایسے اقدامات کا بعض سیاسی‘ مذہبی جماعتوں اور لسانی گروپوں کی جانب سے بھی سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ اس تناظر میں یہ کہنا درست ہے کہ ہمارے معاشرے  میں حکمرانوں اور زور آور طبقات سمیت کسی کو بھی اپنی مرضی کیخلاف سچ کا اظہار قبول نہیں ہوتا۔ سول حکمرانوں کی جانب سے ’’پیڈا‘‘ جیسے کالے قوانین نافذ کرکے اپنی مرضی کے خلاف سچ کو دبانے اور پریس کی آزادی سلب کرنے کے راستے اختیار کئے جاتے رہے ہیں اور ایسی پالیسیاں آج بھی جاری ہیں۔ 
آج کے دور کا المیہ ہے کہ بعض سیاسی عناصر کی جانب سے اظہار رائے کی آزادی کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے گالی گلوچ کلچر کو فروغ دیکر اخلاقیات و معاشرت کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی اور اظہار رائے کی مادرپدر آزادی کا راستہ اختیار کرکے افواج پاکستان‘ عدلیہ اور الیکشن کمیشن سمیت ریاستی اداروں کی جانب بے سروپا الزام تراشی کے ذریعے کیچڑ اچھالنے کی روش بھی اختیار کرلی گئی جو آئین کی دفعہ 19 کے تقاضوں کے سراسر منافی ہے۔ ایسی کسی روش کو پنپنے نہ دینا یقیناً قانون نافذ اور انصاف فراہم کرنیوالے اداروں کی ذمہ داری ہے اور ایسے عناصر ریاستی اتھارٹی کی پکڑ میں آئے بھی ہیں تاہم اس سے یہ مراد نہیں کہ ملک میں اظہار رائے اور صحافت کی آزادی کا تصور ہی بے معنی بنا دیا جائے اور لٹھ لے کر سب کو ہانکنا شروع کردیا جائے۔ آج بدقسمتی سے ریاستی اتھارٹی کا کچھ ایسا ہی تصور پختہ کیا جارہا ہے کہ اس میں اظہار رائے کے آئینی حق کے استعمال کی کوئی جرأت ہی نہ کر پائے۔ اس تناظر میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا یہ کہنا حقیقت کے قریب تر نظر آتا ہے کہ ہر آنیوالے حکمران کو اظہار رائے کی آزادی زہر لگتی ہے۔ اسی تناظر میں یہ امر بھی مبنی برحقیقت ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کو دبانے اور صرف اپنی مرضی کا سچ کہلوانے اور سننے کیلئے اٹھائے جانے والے جبری ریاستی اقدامات سے معاشرے میں پیدا ہونے والی گھٹن بالآخر سڑاند چھوڑنے لگتی ہے جس سے باہر نکلنے کیلئے لوگ بغاوت تک پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اگر حکمران طبقات آزادی اظہار رائے کے آئینی حق کو خوش اسلوبی اور خوش دلی سے قبول کرکے ریاستی اتھارٹی کے ذریعے اس کا تحفظ یقینی بنا دیں تو حکومتی پالیسیوں پر صحت مند تنقید جہاں معاشرے میں ابلاغ کے راستے کھولے گی وہیں حکمرانوں کو سسٹم کی اصلاح کے مثبت راستے بھی دکھاتی رہے گی۔ اس لئے سچ سے گھبرانے کی بجائے اس کا بول بالا یقینی بنائیں تو اس ماحول میں کسی حکمران کو عوام کے پاس جاتے  ہوئے بھی کوئی خوف محسوس نہیں ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...