بھارتی دانشوروں اور اساتذہ نے نئی دہلی میں اسرائیلی سفیر کی یونیورسٹی امور میں مداخلت پر سخت احتجاج کیا ہے اور 470 بروفیسروں اور ماہرین تعلیم نے مشترکہ احتجاجی بیان بھی جاری کیا ہےپروفیسرز کی طرف سے یہ احتجاج اس وقت سامنے آیا جب اسرائیلی سفیر نے یونیورسٹی کیمپس کے اندر فلسطینی تاریخ پر رکھے گئے ایک لیکچر کو منسوخ کروا دیا۔بھارتی دانشوروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں اسرائیلی سفیر اپنی سفارتی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں۔ اسرائیلی سفیر ناؤر گیلون نے گزشتہ ماہ ایک جریدے کے ادارتی معاملےمیں بھی مداخلت کی تھی اور جریدے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔اسرائیلی سفیر دہلی میں باقاعدگی کے ساتھ صحافیوں کے لیے بریفنگز کی میزبانی کرتے ہیں اور بیانات جاری کرتے ہیں۔ وہ اپنے بیانات میں ان بھارتی پروفیسروں اور میڈیا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جو غزہ پر اسرائیل کی بدترین بمباری پر بات کرتے ہیں۔بین الاقوامی تعلقات اورعالمی سیاست کے ریٹائرڈ پروفیسر اچین ونائک کو گزشتہ دنوں او پی جندال گلوبل یونیورسٹی میں فلسطینی تنازع پر ایک لیکچر دینا تھا۔ جس پر اسرائیلی سفیر نے وائس چانسلر سے شکایت کی اور کہا کہ ایسا لیکچر ریاست اسرائیل کو غیر قانونی ثابت کرے گا اس لیے یہ ہمارے لیے سخت مایوسی کا باعث ہے۔اسرائیلی سفیر کے وائس چانسلر کو لکھے گئے اس خط پر تنازع کھڑا ہوگیا اور بعد ازاں اس خط کی بنیاد پر اس لیکچر کو منسوخ کردیا گیا۔انڈین انسٹیوٹ برائے ٹیکنالوجی بمبئی میں ونائک کے لیکچر کی منسوخی نے سب کو صدمے سے دوچار کیا۔ جس کے بعد 470 پروفیسر اور اساتذہ نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا۔ اس بیان میں اسرائیلی سفیر کی یونیورسٹی کے اندرونی معاملات میں مداخلت پر اعتراض کیا اور مزید کہا کہ بھارتی دانشوروں کی تاریخی اور سیاسی تجزیہ کاری پر اسرائیلی سفیر کی مداخلت توہین آمیز ہے۔پروفیسر اپوروانند جھا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی سفیر نے اپنی تمام سفارتی حدود کو پامال کیا ہے اور ایسا وہ بارہا کرچکے ہیں۔ اسرائیلی سفیر نے یونیورسٹی کےوائس چانسلر کو دھمکی آمیز خط لکھا تھا جس نے وائس چانسلر کو خوفزدہ کردیا۔ سفیر کا یہ خط ان تمام سفارتی اقدار کی خلاف ورزی ہے جن کی دنیا بھر میں سفارت کار پابندی کرتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں موجود سفیر اس ملک کے اندرونی معاملات پر کبھی تبصرہ نہیں کرتا۔یہ بھارت کے لوگوں کی زندگیوں میں کھلی مداخلت ہے کوئی بھی سفیر ایسا نہیں کرتا۔ ہم امریکہ پر تنقید کرتے ہیں ، دوسرے ملکوں پر تنقید کرتے ہیں، ہم امریکی استعماریت کے خلاف سیمینار منعقد کر کے امریکہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، ہم امریکہ کو جنگی جنون میں مبتلا ملک قرار دیتے ہیں لیکن ایسے کسی بھی موقع پر امریکی سفیر نے اس طرح کی مداخلت کرنے کی کوشش نہیں کی۔'بھارت فلسطین دوستی فورم کے شریک بانی ندیم خان نے کہا 'یہ سفارت کاری کے ان بریف تیار کرنے کے زمرے میں نہیں آتا جو سفیروں کا معمول ہوتے ہں۔ اسرائیلی سفیر نے اپنی تمام حدود کو عبور کیا ہے۔'ندیم خان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیلی سفیر خود کو بھارت کا باس سمجھتے ہوئے ایسا کر رہے ہیں۔ کسی دوسرے ملک کا سفیر کس طرح ایک بھارتی جریدے کو حکم دے سکتا ہے یہ تصور سے بالاتر چیز ہے۔ نہ صرف یہ کہ بلکہ سفیر موصوف یونیورسٹی میں ہونے والے بحث مباحثوں اور سرگرمیوں میں بھی مداخلت کرنے لگے ہیں۔پامیلا فلیپوز انڈین کونسل آف سوشل سائنس ریسرچ کی فیلو ہے انہوں نے کہا کہ 'اسرائیلی سفیر کی یہ کوشش بھارت میں بیانیے کو کنٹرول کرنے کی ایک اشتعال انگیز کوشش ہے۔ اس سے ان کی جارحانہ انداز کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔ یونیورسٹیاں تصورات اور نظریات پر بحث مباحثے کی جگہیں ہوتی ہیں۔ ایک یونیورسٹی سے باہر بیٹھا ہوا سفیر کس طرح یہ اختیار رکھ سکتا ہے کہ یونیورسٹیوں میں کیا بات زیر بحث آئے گی اور کیا نہیں، اس بات کا فیصلہ ایک سفیر کیسے کرسکتا ہے۔'پروفیسر ناندینی سندردہلی سکول آف اکنامکس میں ماہر عمرانیات ہیں انہوں نے کہا ' ہم آزاد ہیں کہ جس طرح چاہے سوچیں کہ فلسطین اور اسرائیل کا ایشو کیا ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمیں اسرائیلی سفیر بتائے۔ ہمارے لیے اسرائیلی سفیر کی ہدایات قابل قبول نہیں ہیں۔ ہم تعلیمی آزادی چاہتے ہیں کہ ہم جس طرح چاہے یونیورسٹیوں میں بحث مباحثے کا اہتمام کریں۔'میڈیا کے نمائندوں نے بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان سے اس بارے میں وضاحت چاہی کہ ایک اسرائیلی سفیر یونیورسٹیوں کے معاملات میں اس طرح مداخلت کی کوشش کر رہا ہے تاہم ترجمان نے کہا کہ انہیں اس بارے میں کچھ علم نہیں۔