(قسط اول میں سوات سے تشریف لائے ہوئے لکھاریوں کی گفتگو کی روئیداد بیان کی گئی جو کہ اس قسط میں جاری ہے)
’’طالبان کی طرف سے عائد کردہ ٹی وی اور اخبارات پر پابندی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کے اپنے ایف ایم ریڈیو کے علاوہ کوئی اور ذریعہ ابلاغ میدان میں نہ رہے اور اس طرح عوام یکا و تنہا محسوس کریں۔ اسی طرح مخصوص اور چیدہ چیدہ اشخاص کے قتل کا مقصد نہ صرف دہشت بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک خلا پیدا کرنا ہوتا ہے۔ یہ لوگ سیدھے سادے اور پرجوش دیوانے نہیں ہوتے۔ یہ انتہائی منظم طریقہ سے اپنا کام کرتے ہیں۔ یہ غربت زدہ افراد کو اپنی توجہ کا نشانہ بناتے ہیں اور کہتے ہیں‘ ’آؤ ہمارے ساتھ چلو‘ امریکہ کے خلاف جدوجہد کرو اور جنت میں جگہ بناؤ‘‘ ان کے پاس سرمائے کی کمی نہیں ہوتی کیونکہ افیون اور سمگلنگ کے ذریعہ بے انتہا آمدن تک ان کی رسائی ہوتی ہے۔ ان میں اکثر نیم خواندہ ہونے کے باوجود ایک ایک درجن ڈبل کیبن گاڑیوں کے کارواں میں نکلتے ہیں۔ یہ ایف ایم ریڈیو کا انتہائی مؤثر استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی قدرے گمنام شخص کے بارے میں ریڈیو پر اعلان کرتے ہیں کہ اس نے اپنی بیٹی کو سکول سے نکال لیا ہے اور اس طرح جنت میں گھر بنایا ہے۔
فوج کے ایک ترجمان نے چند روز قبل کہا کہ ایف ایم ریڈیوز کو بند کرنا بہت کٹھن کام ہے کیونکہ اکثر یہ بائیسکل پر نصب ہوتے ہیں (راقم الحروف یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جب ہماری فوج کو غیر ملکی امداد میں ہر سال لگ بھگ 50 کروڑ ڈالر (4000 کروڑ روپے) ملتے ہیں‘ تو کیا وجہ ہے کہ یہ چند چھوٹے اور کمزور ریڈیوز کی نشریات کو جام نہیں کر سکتے)
’’سوات کے باشندے اپنے آپکو بے یارومددگار محسوس کرتے ہیں۔ غیر مسلح ہونے کی وجہ سے ان کیلئے مسلح شدت پسندوں کا سامنا کرنا مشکل ہے۔ اس کے برعکس قبائلی علاقوں کے افراد مسلح ہونے کی وجہ سے اپنا تحفظ بہتر کر سکتے ہیں۔ سوات کے عوام محسوس کرتے ہیں کہ صوبہ سرحد میں اگر مولانا فضل الرحمن اور متحدہ مجلس عمل برسراقتدار نہ رہتی تو حالات اس قدر خراب نہ ہوتے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ مذہبی جماعتیں اور بعض عناصر عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ ماضی میں بھی مذہبی جماعتیں مارشل لا کی ’بی‘ ٹیم کا رول ادا کرتی آئی ہیں۔
’’سوات میں سکول جلانے کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ افغانستان میں بھی چند ایک سکول جلائے گئے تھے لیکن بعدازاں فتویٰ واپس لے لیا گیا تھا۔ سکول صرف سوات میں جلائے جا رہے ہیں‘ قبائلی علاقوں میں نہیں‘ شاید اس لئے کہ وہاں کے عوام کے پاس اسلحہ کی زبردست طاقت موجود ہے۔ فوج کے بعض یونٹس بھی لڑکیوں کے سکولوں میں ہیڈکوارٹر یا رہائش گاہ بنا لیتے ہیں اور اس طرح ایسے سکول کو کھولنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ آرمی چیف سے استدعا ہے کہ حکم جاری کریں کہ کوئی فوجی یونٹ کسی بھی سکول کو اپنے استعمال میں نہیں لائے گا اور اگر کسی جگہ ایسا ہوا ہے تو اس سکول کو کھول کر اپنا بندوبست کسی اور جگہ یا عمارت میں کیا جائے گا تاکہ سکول فوراً کھولے جا سکیں اور قوم کی بچیوں کو تعلیم سے عاری نہ رکھا جائے۔‘‘
کنسرنڈ سٹیزنز آف پاکستان (سی سی پی) کے زیراہتمام منعقدہ مذکورہ بالا نشست میں جو کہ لاہور پریس کلب میں منعقد ہوئی‘ سوات سے آئے ہوئے مقررین اس بات پر متفق تھے کہ اگر فوج چاہے تو چند روز کے دوران حالات کو کنٹرول کر کے امن بحال کر سکتی ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر ایسی بات ہے تو کیا وجہ ہے کہ حکومت اور فوج نے حالات کو اس قدر خراب ہونے دیا کہ شدت پسندوں نے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کو چن چن کر مارا اور سوات کو چھوڑنے پر مجبور کیا؟ کیا وجہ ہے کہ بار بار آپریشن کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ ماضی کے برطانوی سیاست دان ایڈمنڈ برک کے مطابق اس قوم پر حکومت نہیں کی جا سکتی جسے بار بار فتح کرنا پڑے۔
حالات اس قدر دگرگوں ہو چکے ہیں کہ طالبان نے 45 عدد وزرا‘ ممبران اسمبلی اور ناظمین کو حکم صادر کیا ہے کہ وہ ان کے سامنے پیش ہوں ورنہ ان کو اٹھا لیا جائیگا۔ ان کی دیدہ دلیری کی انتہا یہ ہے کہ انہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ وہ صدر اور وزیراعظم کو بھی بلائیں گے۔ پاکستان کی ریاست کی اس قدر بے توقیری پہلے کبھی نہ ہوئی تھی اور یہ ہمارے یکے بعد دیگرے حکمرانوں کی نالائقی کا نتیجہ ہے۔ اس صورتحال کیلئے جوابدہ کون ہے؟ کہاں ہیں ہمارے عظیم حکمران اور کہاں ہیں ہمارے رکھوالے؟
قطرینہ حسین کے ٹی وی پروگرام میں مسلم لیگ (ن) کے ایک ایم این اے نے حکومت کو صوبہ سرحد میں مسلح بغاوت کی طرف توجہ نہ کرنے پر سخت ترین تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ سوات اور فاٹا جل رہے ہیں لیکن پارلیمنٹ پچھلے 19 دن سے صدر کی تقریر کا تجزیہ کر رہی ہے۔
حزب مخالف کے ایم این اے صاحبان نے پوائنٹس آف آرڈر کے ذریعہ لاکھ کوشش کی ہے کہ سوات کے مسئلے پر بحث کی جائے لیکن بے سود۔ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ حکومت صرف وقت ضائع کرنا چاہتی ہے تاکہ پارلیمنٹ کے سیشن کیلئے کم از کم جتنے دن ضروری ہوتے ہیں‘ وہ پورے ہو جائیں اور پارلیمنٹ کو سوات پر بحث کئے بغیر گھر بھیج دیا جائے۔ شاید وجہ یہ ہو کہ پارلیمنٹ میں کھلی بحث کے بعد امریکی ایجنڈا پر حرف بحرف عمل مشکل ہو جانے کا اندیشہ ہے۔
قدرت کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ ہمیں سوات اور فاٹا کی خبر غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے مل رہی ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ طالبان کے مسئلے کے بارے میں حکومت کی سمت‘ ارادے اور اقدامات سبھی غلط ہیں‘ ورنہ ملٹری آپریشن کے نتیجہ میں طالبان کے زیراثر علاقہ 15 فیصد سے بڑھ کر 80 فیصد ہرگز نہ ہو جاتا۔ مشیر داخلہ رحمن ملک نے بیان دیا ہے کہ سوات اور فاٹا پر دو ہفتے کے دوران کنٹرول حاصل کر لیا جائے گا۔ چلو انہوں نے یہ تو تسلیم کر لیا کہ اس وقت یہ علاقے کنٹرول سے باہر ہیں۔ ایسا نظر آتا ہے کہ آپ کا حقیقت سے رابطہ بالکل منقطع ہو چکا ہے۔
جناب عالی! اگر آپ ایک سال میں کنٹرول نہیں کر پائے بلکہ حالات بہت زیادہ خرابی کی طرف گئے ہیں‘ تو اب آپ کے ہاتھ کون سی گیدڑ سنگھی آ گئی ہے کہ آپ دو ہفتہ میں ایسا کر پائیں گے؟ ادھر وزیراعظم کو ڈیووس نہیں جانا چاہئے تھا بلکہ سوات کا دورہ کرنا چاہئے تھا۔
دراصل حکومت اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی حکمت عملی ایک جیسی نہیں ہے۔ فوجی آپریشن کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مؤثر رہنمائی میسر ہونی چاہئے۔ دوسری صورت میں اندھا دھند بمباری سے سویلین افراد ہلاک ہوتے ہیں اور اس کا شدید سیاسی ردعمل ہوتا ہے۔ ہماری ایجنسیاں گو ملک سے باہر مختلف اطراف میں پنگے لیتی رہتی ہیں‘ لیکن وطن عزیز میں حزب مخالف کے سیاست دانوں کو زیر کرنے کے علاوہ شاید ان کا اتنا زیادہ رول نہیں ہے۔
’’طالبان کی طرف سے عائد کردہ ٹی وی اور اخبارات پر پابندی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کے اپنے ایف ایم ریڈیو کے علاوہ کوئی اور ذریعہ ابلاغ میدان میں نہ رہے اور اس طرح عوام یکا و تنہا محسوس کریں۔ اسی طرح مخصوص اور چیدہ چیدہ اشخاص کے قتل کا مقصد نہ صرف دہشت بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک خلا پیدا کرنا ہوتا ہے۔ یہ لوگ سیدھے سادے اور پرجوش دیوانے نہیں ہوتے۔ یہ انتہائی منظم طریقہ سے اپنا کام کرتے ہیں۔ یہ غربت زدہ افراد کو اپنی توجہ کا نشانہ بناتے ہیں اور کہتے ہیں‘ ’آؤ ہمارے ساتھ چلو‘ امریکہ کے خلاف جدوجہد کرو اور جنت میں جگہ بناؤ‘‘ ان کے پاس سرمائے کی کمی نہیں ہوتی کیونکہ افیون اور سمگلنگ کے ذریعہ بے انتہا آمدن تک ان کی رسائی ہوتی ہے۔ ان میں اکثر نیم خواندہ ہونے کے باوجود ایک ایک درجن ڈبل کیبن گاڑیوں کے کارواں میں نکلتے ہیں۔ یہ ایف ایم ریڈیو کا انتہائی مؤثر استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی قدرے گمنام شخص کے بارے میں ریڈیو پر اعلان کرتے ہیں کہ اس نے اپنی بیٹی کو سکول سے نکال لیا ہے اور اس طرح جنت میں گھر بنایا ہے۔
فوج کے ایک ترجمان نے چند روز قبل کہا کہ ایف ایم ریڈیوز کو بند کرنا بہت کٹھن کام ہے کیونکہ اکثر یہ بائیسکل پر نصب ہوتے ہیں (راقم الحروف یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جب ہماری فوج کو غیر ملکی امداد میں ہر سال لگ بھگ 50 کروڑ ڈالر (4000 کروڑ روپے) ملتے ہیں‘ تو کیا وجہ ہے کہ یہ چند چھوٹے اور کمزور ریڈیوز کی نشریات کو جام نہیں کر سکتے)
’’سوات کے باشندے اپنے آپکو بے یارومددگار محسوس کرتے ہیں۔ غیر مسلح ہونے کی وجہ سے ان کیلئے مسلح شدت پسندوں کا سامنا کرنا مشکل ہے۔ اس کے برعکس قبائلی علاقوں کے افراد مسلح ہونے کی وجہ سے اپنا تحفظ بہتر کر سکتے ہیں۔ سوات کے عوام محسوس کرتے ہیں کہ صوبہ سرحد میں اگر مولانا فضل الرحمن اور متحدہ مجلس عمل برسراقتدار نہ رہتی تو حالات اس قدر خراب نہ ہوتے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ مذہبی جماعتیں اور بعض عناصر عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ ماضی میں بھی مذہبی جماعتیں مارشل لا کی ’بی‘ ٹیم کا رول ادا کرتی آئی ہیں۔
’’سوات میں سکول جلانے کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ افغانستان میں بھی چند ایک سکول جلائے گئے تھے لیکن بعدازاں فتویٰ واپس لے لیا گیا تھا۔ سکول صرف سوات میں جلائے جا رہے ہیں‘ قبائلی علاقوں میں نہیں‘ شاید اس لئے کہ وہاں کے عوام کے پاس اسلحہ کی زبردست طاقت موجود ہے۔ فوج کے بعض یونٹس بھی لڑکیوں کے سکولوں میں ہیڈکوارٹر یا رہائش گاہ بنا لیتے ہیں اور اس طرح ایسے سکول کو کھولنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ آرمی چیف سے استدعا ہے کہ حکم جاری کریں کہ کوئی فوجی یونٹ کسی بھی سکول کو اپنے استعمال میں نہیں لائے گا اور اگر کسی جگہ ایسا ہوا ہے تو اس سکول کو کھول کر اپنا بندوبست کسی اور جگہ یا عمارت میں کیا جائے گا تاکہ سکول فوراً کھولے جا سکیں اور قوم کی بچیوں کو تعلیم سے عاری نہ رکھا جائے۔‘‘
کنسرنڈ سٹیزنز آف پاکستان (سی سی پی) کے زیراہتمام منعقدہ مذکورہ بالا نشست میں جو کہ لاہور پریس کلب میں منعقد ہوئی‘ سوات سے آئے ہوئے مقررین اس بات پر متفق تھے کہ اگر فوج چاہے تو چند روز کے دوران حالات کو کنٹرول کر کے امن بحال کر سکتی ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر ایسی بات ہے تو کیا وجہ ہے کہ حکومت اور فوج نے حالات کو اس قدر خراب ہونے دیا کہ شدت پسندوں نے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کو چن چن کر مارا اور سوات کو چھوڑنے پر مجبور کیا؟ کیا وجہ ہے کہ بار بار آپریشن کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ ماضی کے برطانوی سیاست دان ایڈمنڈ برک کے مطابق اس قوم پر حکومت نہیں کی جا سکتی جسے بار بار فتح کرنا پڑے۔
حالات اس قدر دگرگوں ہو چکے ہیں کہ طالبان نے 45 عدد وزرا‘ ممبران اسمبلی اور ناظمین کو حکم صادر کیا ہے کہ وہ ان کے سامنے پیش ہوں ورنہ ان کو اٹھا لیا جائیگا۔ ان کی دیدہ دلیری کی انتہا یہ ہے کہ انہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ وہ صدر اور وزیراعظم کو بھی بلائیں گے۔ پاکستان کی ریاست کی اس قدر بے توقیری پہلے کبھی نہ ہوئی تھی اور یہ ہمارے یکے بعد دیگرے حکمرانوں کی نالائقی کا نتیجہ ہے۔ اس صورتحال کیلئے جوابدہ کون ہے؟ کہاں ہیں ہمارے عظیم حکمران اور کہاں ہیں ہمارے رکھوالے؟
قطرینہ حسین کے ٹی وی پروگرام میں مسلم لیگ (ن) کے ایک ایم این اے نے حکومت کو صوبہ سرحد میں مسلح بغاوت کی طرف توجہ نہ کرنے پر سخت ترین تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ سوات اور فاٹا جل رہے ہیں لیکن پارلیمنٹ پچھلے 19 دن سے صدر کی تقریر کا تجزیہ کر رہی ہے۔
حزب مخالف کے ایم این اے صاحبان نے پوائنٹس آف آرڈر کے ذریعہ لاکھ کوشش کی ہے کہ سوات کے مسئلے پر بحث کی جائے لیکن بے سود۔ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ حکومت صرف وقت ضائع کرنا چاہتی ہے تاکہ پارلیمنٹ کے سیشن کیلئے کم از کم جتنے دن ضروری ہوتے ہیں‘ وہ پورے ہو جائیں اور پارلیمنٹ کو سوات پر بحث کئے بغیر گھر بھیج دیا جائے۔ شاید وجہ یہ ہو کہ پارلیمنٹ میں کھلی بحث کے بعد امریکی ایجنڈا پر حرف بحرف عمل مشکل ہو جانے کا اندیشہ ہے۔
قدرت کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ ہمیں سوات اور فاٹا کی خبر غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے مل رہی ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ طالبان کے مسئلے کے بارے میں حکومت کی سمت‘ ارادے اور اقدامات سبھی غلط ہیں‘ ورنہ ملٹری آپریشن کے نتیجہ میں طالبان کے زیراثر علاقہ 15 فیصد سے بڑھ کر 80 فیصد ہرگز نہ ہو جاتا۔ مشیر داخلہ رحمن ملک نے بیان دیا ہے کہ سوات اور فاٹا پر دو ہفتے کے دوران کنٹرول حاصل کر لیا جائے گا۔ چلو انہوں نے یہ تو تسلیم کر لیا کہ اس وقت یہ علاقے کنٹرول سے باہر ہیں۔ ایسا نظر آتا ہے کہ آپ کا حقیقت سے رابطہ بالکل منقطع ہو چکا ہے۔
جناب عالی! اگر آپ ایک سال میں کنٹرول نہیں کر پائے بلکہ حالات بہت زیادہ خرابی کی طرف گئے ہیں‘ تو اب آپ کے ہاتھ کون سی گیدڑ سنگھی آ گئی ہے کہ آپ دو ہفتہ میں ایسا کر پائیں گے؟ ادھر وزیراعظم کو ڈیووس نہیں جانا چاہئے تھا بلکہ سوات کا دورہ کرنا چاہئے تھا۔
دراصل حکومت اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی حکمت عملی ایک جیسی نہیں ہے۔ فوجی آپریشن کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مؤثر رہنمائی میسر ہونی چاہئے۔ دوسری صورت میں اندھا دھند بمباری سے سویلین افراد ہلاک ہوتے ہیں اور اس کا شدید سیاسی ردعمل ہوتا ہے۔ ہماری ایجنسیاں گو ملک سے باہر مختلف اطراف میں پنگے لیتی رہتی ہیں‘ لیکن وطن عزیز میں حزب مخالف کے سیاست دانوں کو زیر کرنے کے علاوہ شاید ان کا اتنا زیادہ رول نہیں ہے۔