”تہوار کے نام پر بے گناہ لوگوں کے گلے کاٹنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی“ ہائیکورٹ نے پابندی جائز قرار دیدی

لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ کے مسٹرجسٹس اعجاز احمد چودھری نے امتناع پتنگ بازی آرڈیننس کے خلاف دائر درخواست کو مسترد کرتے ہوئے عدالت کے عبوری فیصلے میں پتنگ بازی پر پابندی کو جائز قرار دیا ہے کہ چند لوگوں کے لئے عوام کی جان و مال کو خطرے میں ڈالا جا سکتا نہ ایک تہوار کے نام پر معصوم اور بے گناہ لوگوں کے گلے کاٹنے کی اجازت دی جا سکتی ہے لہٰذا پتنگ بازی کی اجازت دینا پنجاب اور بالخصوص لاہور کے عوام کے مفاد کے خلاف ہے۔ عدالت نے چیف سیکرٹری پنجاب کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس رپورٹ کے مطابق جس سال پتنگ بازی کی اجازت دی گئی اس سال اس کے نتیجے میں 18 افراد ہلاک اور 75 زخمی ہوئے جبکہ واپڈا کو بھی 5 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ حکومت کی جانب سے پتنگ بازی پر پابندی کے حوالے سے پیش کی گئی وجوہات معقول ہیں اور ویسے بھی پتنگ بازی کی اجازت دینا یا نہ دینا ایک پالیسی معاملہ ہے جس میں مداخلت کا اختیار عدالت کے پاس نہیں ہے۔ عدالت نے مزید قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل 18 کے تحت ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کے جان و مال کو تخفظ فراہم کیا جائے۔ عدالت نے درخواست گذار کی جانب سے بسنت کے موقع پر پتنگ بازی کے لئے ایک علاقے کو مخصوص کرنے اور اسے ٹریفک فری زون قرار دینے کی تجویز کو بھی مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ یہ اقدام اس لئے ممکن نہیں ہے کہ کسی ایمرجنسی یا ہنگامی صورتحال میں کسی مریض کو ہسپتال لے جانا ہو تو کیا وہ گھر بیٹھا رہے کہ آج ٹریفک بند ہے اس لئے وہ باہر نہیں نکل سکتا۔ واضح رہے کہ گذشتہ روز عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ ایک تہوار کے نام پر معصوم اور بے گناہ لوگوں کے گلے کاٹنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ بعدازاں عدالت نے عبوری حکم کے ذریعے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ قبل ازیں چیف سیکرٹری پنجاب کی جانب سے داخل کئے گئے جواب میں بتایا گیا تھا کہ سال 2006ءمیں پتنگ بازی سے 18 افراد جاںبحق اور 75 زخمی ہوئے جبکہ واپڈا کو 5 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ مختلف گرڈ سیٹشنوں کو 57 ملین روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ درخواست گذار پتنگ ساز تاجر سہیل انصاری کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ امتناع پتنگ بازی آرڈنینس میں ترامیم سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں کی گئیں جن میں عدالت عظمیٰ نے ہدایت کی تھی کہ حکومت تمام فریقین کا موقف سن کر مذکورہ قانون میں ترامیم کرے لیکن قانون سازی کرتے وقت ایسا نہیں کیا گیا۔ جبکہ قانون میں ترمیم کرنے والے ماہرین پتنگ اور ڈور سے بالکل لاعلم تھے حالانکہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ قانون میں یہ ترامیم متعلقہ فریقین سے تجاویز لے کر کی جائیں اور ایسی پتنگ اور ڈور تیار کی جائے جس سے انسانی جانوں اور مال کو نقصان پہنچنے کا احتمال نہ ہو۔

ای پیپر دی نیشن