اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہونے والے اجلاس میں جسٹس فائز عیسی نے اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق سے ویڈیو بیان کے بارے میں رائے طلب کی جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسے مقدمات ہیں جن میں ویڈیو لنک کے ذریعے بیان لیا گیا ، جسٹس فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ آپ اس کی حمایت کرتے ہیں ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہیں اس پر بعض تحفظات ہیں کیونکہ بیان دینے والے کے چہرے کے تاثرات اور باڈی لینگوئج کا درست اندازہ لگانے میں مشکل ہوسکتی ہے،اٹارنی جنرل کی رائے سننے کے بعد میمو کمیشن نے قراردیا کہ منصور اعجاز کا بیان ویڈیولنک کے ذریعے ریکارڈ کیا جائے گا جبکہ شواہد اکٹھے کرنے کیلئےکمیشن کے سیکرٹری لندن جائیں گے۔ اس قبل میمو سکینڈل کے مرکزی کردار منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ نےمنصوراعجاز کابیان حلفی جمع کرایا جس میں کہا گیا تھا کہ منصور اعجاز بیرون ملک کمیشن کےسامنے پیش ہونے کیلئےتیارہیں،بیان حلفی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر منصوراعجاز پیش ہونے سے انکار کریں یا غلط بیانی سے کام لیں تو ان کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے، کمیشن کے سربراہ جسٹس فائزعیسی نے کہا کہ اگر منصور اعجاز پاکستان نہیں آتے تو دفعہ ایک سو چونسٹھ کے تحت ویڈیو اور آڈیو لنک کے ذریعے ان کا بیان ریکارڈ کیا جاسکتا ہے۔ حسین حقانی کے وکیل زاہد بخاری نے کہا کہ اگر منصور اعجاز کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے لیا گیا تو پھران کے مؤکل کا بیان بھی اسی طریقے سے لیا جائے، میمو کیس میں درخواست گذاربیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ اگر منصور اعجاز کا بیرون ملک بیان لیا گیا تو حسین حقانی بھی واپس نہیں آئیں گے ۔کمیشن بیرون ملک جانے کی بجائے دوسری شہادت کے طور پر ڈی جی آئی ایس آئی کو طلب کرکے ان کا بیان ریکارڈ کرے۔ بیرسٹرظفراللہ نے کہا کہ یہ ایک سازش ہورہی ہے، انہوں نے بتایا کہ منصور اعجاز امریکی سپریم کورٹ سے دو مقدمات میں اشتہاری ہے۔ سابق سفیر حسین حقانی کے وکیل زاہد بخاری نے کمیشن کو بتایا کہ منصور اعجاز امریکہ میں چار مقدمات میں مفرور ہیں۔