کارگل اور اعلان واشنگٹن


کارگل کی بلندیوں پر کشمیری مجاہدین کے قبضے سے چار جولائی 1999ءکے اعلان واشنگٹن کی پستیوں تک تمام واقعات کے نشیب و فراز کے متعلق تفصیلات ان دنوں قومی اور عالمی پریس میں باافراط موجود ہیں۔ اگرچہ اس وقت پاکستانی اور عالمی پریس میں یہ سوال بار بار پوچھا گیا کہ کارگل آپریشن کا اصل مجرم کون تھا لیکن تاحال اس کا کوئی شفاف اور دوٹوک جواب سامنے نہیں آیا۔ اگرچہ بھارت نے اس رائے کو ابھارنے کی کوشش میں کافی حد تک دنیا کے سفارتی حلقوں میں کامیابی حاصل کی کہ کارگل آپریشن پاکستان کی مسلح افواج کے ذہن کی تخلیق اور اختراع ہے اور حکومت پاکستان اس میں ملوث نہیں لیکن اس وقت کی پاکستانی حکومت کے وزیراعظم نواز شریف اعلان واشنگٹن کی پسپائی سے صرف چند روز پہلے تک اس اہم فوجی کامیابی کا کریڈٹ لیتے رہے۔ قارئین جب کارگل آپریشن مئی کے وسط میں سامنے آیا اور تیسرا ہفتہ شروع ہوا تو نواز شریف سے لے کر مشاہد حسین تک کارگل آپریشن کی تعریف کرتے پھر رہے تھے۔
یہ جون کے آخری دنوں کا وزیراعظم کا بیان ہے۔ انہی دنوں نواز شریف حکومت نے پرویز مشرف کے بی بی سی کے انٹرویو میں یہ بات واضح طور پر کہی کہ یہ ہماری فوجی قیادت اور سیاسی حکومت دونوں کا مشترکہ منصوبہ تھا۔ جب حکومت نے آرمی چیف پرویز مشرف کے اس بیان کہ Everybody was on boardاور اس متعین سوال پر کہ کیا وزیراعظم کو اس بات کا علم تھا تو انہوں نے کہا ہاں "Absolutely"۔ گویا ایک طرف آرمی چیف کے بیان کی تردید نہ کرنا اور دوسری طرف فوج کے مورال کو بلند کرنے کے لئے مذکورہ بالا بیان اس بات کی دلیل ہے کہ کارگل آپریشن پر فوج اور سیاسی حکومت کے درمیان پوری یکجہتی تھی۔ انہی دنوں جب واشنگٹن کا اعلان بالکل تازہ تھا۔ بینظیر بھٹو نے کہا کہ میں دو دفعہ پاکستان کی وزیراعظم رہی ہوں۔ میں اپنے تجربے کی بنیاد پر سمجھتی ہوں کہ وزیراعظم کو اعتماد میں لئے بغیر فوج اتنا بڑا آپریشن شروع ہی نہیں کر سکتی تھی جبکہ اس قدر وسیع مضمرات Implications ہوں۔ انہی دنوں حکومت کی طرف سے مشاہد حسین سید اور طارق الطاف جبکہ فوج کے ترجمان راشد قریشی نے صحافیوں کو کارگل کے متعلق مشترکہ بریفنگ دی تھی۔ بریگیڈائر راشد قریشی نے ایک سوال کے جواب میں یہ کہا:
"There is a complete harmony between the army and government on this issu"
یوں اس آپریشن کو اس وقت کی فوجی اور سیاسی قیادت نے نہ صرف اس کو own کیا بلکہ اس پر فخر کا اظہار بھی کیا۔ اس کا نقطہ عروج 27جون 1999ءکو آیا جب انڈیا کے دو جہاز لائن آف کنٹرول کو عبور کر کے آزاد کشمیر کے علاقے میں آ گئے۔ اس وقت ہماری فوج کے جوانوں نے ان دونوں جہازوں کوگرا لیا۔ ایک جہاز کا پائلٹ زندہ پکڑا گیا اور ایک کا پائلٹ مر گیا تھا۔ انہی دنوں کرکٹ ورلڈ کپ کے ابتدائی میچز ہو رہے تھے۔ پاکستان کی ٹیم نے تین چار میچ لگاتار جیتے تھے اور اس وقت پاکستان کے پریس میں یہ بھی چھپا کہ کھیل کے میدان سے جنگ کے میدان تک کامیابیوں کی ایک لہر چل رہی ہے۔ اس وقت ان دونوں جہازوں کو گرانے کا اعزاز بھی نواز شریف حکومت نے پوری طرح لیا مگر اس کے بعد کیا ہوا۔ کیوں نواز شریف حکومت نے کارگل سے لاتعلقی کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ 23جون کو امریکہ کی سنٹرل کمان کے چیف جنرل انتھونی زینی پاکستان کے دورے پر آئے۔ ان کی آمد پر کیا ہوا۔ کس قسم کے پیغام وہ لے کر آئے تھے۔ کس طرح کا تبادلہ خیالات ہوا۔ اس کی تفصیلات حکومت نے سرکاری طور پر کبھی بھی بیان نہیں کیں۔ اگرچہ سنٹرل کمانڈ کے سربراہ کے طور پر وہ اکثر آتے تھے مگر واقفان حال جانتے ہیں کہ ان کے آنے کے بعد حکومت پاکستان کا رویہ کارگل اور کشمیر کے بارے میں یکدم بدلنا شروع ہو گیا حالانکہ کارگل کا آپریشن کا ایک خاکہ بڑے عرصے سے جی ایچ کیو کی فائلز کے اندر موجود تھا اور مختلف اوقات میں ہماری فوجی قیادت نے حکومت وقت کے سامنے یہ خواہش ظاہر کی کہ اگر مجاہدین اس طرح کا ایک آپریشن کنٹرول لائن پر کرنا چاہیں جہاں کسی قسم کی سرحدوں کا تعین نہیں ہے تو ہمیں اس میں مزاحم نہیں ہونا چاہئے مگر پچھلی حکومتوں نے اس تجویز کی بھرپور انداز میں حمایت نہیں کی مگر نواز شریف حکومت نے اکتوبر 1998ءمیں اس آپریشن کی منظوری دے دی بلکہ جیسا کہ جنرل شاہد عزیز نے اپنی کتاب میں تذکرہ کیا ہے کہ نواز شریف نے بڑی سرشاری سے پرویز مشرف سے پوچھا ”جنرل صاحب کب ہمیں کشمیر لے کر دے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کارگل کی پہاڑیوں پر مجاہدین نے قبضہ کیا اور ہم نے ان کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی مدد اور فوج نے ان کی کسی حد تک تکنیکی رہنمائی کی مگر اعلان واشنگٹن کے بعد وزیراعظم پاکستان کی اپیل پر جب نیم فوجی دستوں اور مجاہدین کی بہت بڑی تعداد کارگل کی پہاڑیوں سے نیچے اتر آئی اور اس نے وہ قبضہ چھوڑ دیا تو دنیا نے یہ باور کر لیا کہ اگر وزیراعظم کے کہنے پر کارگل سے مجاہدین اور نیم فوجی دستے واپس آ سکتے ہیں تو اس اپریشن میں ان کی رضامندی لازماً شامل تھی۔ مگر بعد میں نواز شریف صاحب نے یہ موقف اختیار کیا کہ ایسا کرنا ان کی مجبوری تھی کیونکہ پرویز مشرف نے اس سے درخواست کی کہ وہ امریکہ کے صدر بل کلنٹن کے ذریعے ہماری فیس سیونگ کروائیں مگر حقیقتاً جنرل زینی کے پاکستان کے دورے کے بعد ہماری حکومت کو بین الاقوامی حلقوں سے ایسے سگنلز ملنے شروع ہو چکے تھے کہ آپ نے مجاہدین کو لائن آف کنٹرول عبور کرنے میں جو مدد کی ہے کہ وہ صرف سفارتی اور اخلاقی ہے۔ ہم آپ کے اس دعوے کو درست نہیں سمجھتے۔ ہماری یہ رائے ہے کہ پاکستان کے فوجی بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے کارگل کے پہاڑوں پر قبضہ کیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ان میں کچھ طالبان افغان اور کشمیری بھی ہیں۔ پاکستان نے ایک منصوبے کے تحت ان لوگوں کو لائن آف کنٹرول کے پار بھیجا ہے جس وقت انڈیا یہ بات کہہ رہا تھا‘ ہماری حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ سفارت کاری کے ذریعے ہندوستان کو یہ باور کراتی کہ اس نے 1984, 1972 اور 1988ءمیں تین مواقع پر لائن آف کنٹرول جو شملہ معاہدے کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی اس کی خلاف ورزی کیوں کی تھی اس وقت یاد نہیں آیا کہ : ع ....ایں گناہ ہیست کہ در شہر شما نیز کنند
اگر کوئی غلطی پاکستان نے کی تو ہندوستان بھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے کہ آیا انہوں نے بھی کوئی گناہ کیا لیکن نہیں۔ ہندوستان یہ تسلیم نہیں کرتا ہے اور نہ بین الاقوامی برادری اس ضمن میں اس پر دباﺅ ڈالتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن