کیا کریں وہ غریب جن کے گھر
صرف تنخواہ پر نہیں چلتے
محکمے بھی ہیں ان کے کچھ ایسے
خواب رشوت کے بھی نہیں پلتے
رات دن نوکری پر جاتے ہیں
سخت محنت سے جو کماتے ہیں
کاٹ کر آدھا پیٹ مشکل سے
گیس بجلی کے بل چکاتے ہیں
پھر بھی تقریر سب کی سنتے ہیں
جھوٹی باتیں غضب کی سنتے ہیں
باندھ لیتے ہیں اس سے امیدیں
بات گر کوئی ڈھب کی سنتے ہیں
جب الیکشن قریب آتا ہے
ہر کوئی ان کو ورغلاتا ہے
میٹھا میٹھا دکھاتا ہے دریا
پانی کھارا مگر پلاتا ہے
خود فریبی میں مر گیا دادا
باپ سے ملک چھن گیا آدھا
ووٹ لینے کو آج پوتے سے
رہنما کر رہا ہے پھر وعدہ
نسلِ نو خوب جانتی ہے مگر
کھایا اس بار بھی فریب اگر
جیسے وہ رو رہی ہے پچھلوں کو
روئے گا اس کو بھی پھر اس کا پِسر
کرو اصرار کہ الیکشن ہو
دور اس ملک سے کرپشن ہو
راہِ جمہور صاف اور سیدھی
اور رواں اس پہ ساری نیشن ہو