انتظار حسین اور منیر نیازی

انتظار حسین (اصل نام منظر علی) بھارت کے بلند شہر میں پیدا ہوئے اور پاکستان میں شہرت ی بلندیوں تک پہنچے ۔ وہ منیر نیازی کی شعری صلاحیتوں کے معترف تھے، منیر نیازی بھی انتظار حسین کی شخصیت اور فن کے قدردان تھے۔ 2003ء میں قطرمیں مقیم عبدالحمید مفتاح نے منیر نیازی کیلئے ٔ’’المفتاح ایوارڈ‘‘ کا اعلان کیا تو اسکی تقریب شیزان ریسٹورنٹ لاہور میں منعقد کی۔ انتظامی امورکی ذمے داری راقم الحروف کو سونپی گئی۔ یہ کیش ایوارڈ تھا۔ میں نے منیر نیازی سے دریافت کیا کہ تقریب کی صدارت کس سے کرائی جائے۔ انہوں نے انتظار حسین کا نام لیا۔ انتظار حسین سے بات کی گئی تو انہوں نے رضامندی ظاہر کی۔ انتظار حسین نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا تھا کہ ’’خوشی اور فخر کا مقام ہے کہ منیر نیازی کو المفتاح ایوارڈ دیا گیا۔ یہ اعزاز، یہ تمغہ ایسی شخصیت کو دیا گیا جو واقعی احترام کی مستحق ہے۔ اس ایوارڈ کی عزت اور وقار میں اضافہ ہوا۔ منیر نیازی ہمارے عہد کا منفرد شاعر ہے۔ اسکے پاس شاعری کیلئے ایسا تجربہ ہے جو اسکے ہم عصر شعرا میں کم دکھائی دیتا ہے۔ منیر نیازی کی شاعری اردو کی روایت سے مختلف ہے۔ یعنی یہ روایتی شاعری بھی نہیں اور روایت سے بیگانہ بھی نہیں۔ منیر نیازی نے ایک شاعر کی حیثیت سے زندگی بسر کی۔ وہ صرف اور محض شاعر ہے۔ اسکی شخصیت جادوبھری ہے۔ اسکی شخصیت اسکی شاعری کی توسیع ہے۔ اس نے باوقار انداز میں زندگی بسر کی۔ میں اسکی شاعری کا دیرینہ قاری اور مداح ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس عہد کا سب سے بڑا شاعر منیر نیازی ہے۔ اس کو ایوارڈ ملنا ہم سب کی عزت ہے‘‘ منیر نیازی کا شعری مجموعہ ’’دشمنوں کے درمیان شام‘‘ شائع ہوا تو اس کا دیباچہ انتظار حسین نے لکھا۔ انتظار حسین نہ صرف اردو بلکہ منیر نیازی کی پنجابی شاعری کا بھی تذکرہ کرتے اورسراہتے۔ میرٹھی ہونے کے باوجود انتظار حسین پنجابی زبان وادب کی اہمیت کے قائل تھے۔ پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھے ایک مرتبہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ بھارت سے ہجرت کر کے جو لاہور آئے ہیں۔ ہمیں لاہور ی زبان پنجابی پڑھنی اور بولنی چاہیے۔ آخر ہم انگریزی بھی تو سیکھتے اور بولتے ہیں۔ انتظار حسین نے جس سن میں ایم اے (اردو) کی ڈگری حاصل کی۔ وہ سن میری پیدائش کا ہے یعنی 1946ء
منیر نیازی جالندھر سے بارہ میل دور ہوشیار پور کے علاقے میں پیدا ہوئے۔ اردو اور پنجابی کے فرق کے باوجود انتظار حسین اور منیر نیازی میں گہری دوستی رہی۔ ’’ہجرت کا ثمر‘‘کے حوالے سے انتظار حسین نے لکھا ۔ ’’دراصل میں اور منیر نیازی جنت سے ایک ہی وقت سے نکالے گئے تھے۔ ہم نے ایک دوسرے کو اسی حیثیت میں پہچانا ہے۔ چلتے پھرتے ہماری مڈھ بھیڑ ہوتی ہے۔ منیر نیازی سنانے لگتا ہے کہ اسکی بستی میں آموں کے ایسے گھنے پیڑ تھے۔ میں بیان کرنے لگتا ہوں کہ اپنی بستی میں شام کیسے پڑتی تھی اور مور کس رنگ سے بولتا تھا۔مشرقی پنجاب سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر مصنفین فلمی دنیا سے وابستہ تھے، اس لیے انہوں نے ہجرت کو محسوس نہیں کیا لیکن انتظار حسین نے ناول ’’بستی‘‘ میں اور اپنے افسانوں میں اس کیفیت کو محسوس کیا ہے۔ انتظار حسین کہانی میں اساطیر کا استعمال کرتے تھے جس سے ناول بڑا بن جاتا۔ ان کی زیادہ کہانیاں یاد رفتہ کے حوالے سے ہیں۔ بعد میں انتظار حسین کے ہاں داستانوی رنگ تبدیل ہوا۔ Nostalgia (وطن کی یاد) ضرور ہے مگر انداز میں تبدیلی واقع ہوئی۔ پاک ٹی ہاؤس میں انتظار حسین تقریباََروزانہ آتے تھے۔ وہاں انکی بیٹھک زیادہ تر ڈاکٹر سہیل احمد خان، احمد مشتاق، مظفر علی سید، زاہد ڈار، محمد سلیم الرحمن و دیگر کے ساتھ ہوتی۔ انتظار حسین سے زاہد ڈار کی اتنی دوستی ہوئی کہ وہ انتظار صاحب کے گھر رہائش پذیر ہو گئے اور انتظار حسین کی وفات تک انکے ساتھ رہے۔ زاہد ڈار کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ وہ پاک ٹی ہاؤس میں کسی نہ کسی کتاب کا مطالعہ کرتے رہتے۔ ڈاکٹر سہیل احمد خان (مرحوم) کے بارے میں بھی کہاجاتا کہ انکا وسیع مطالعہ تھا۔ انہوں نے ناصر کاظمی، منیر نیازی اور انتظار حسین کے بارے میں بہت لکھا۔ ناصر کاظمی نے انتظار حسین کے بار ے میں کہا تھا کہ وہ مردہ لمحوں کو زندہ کر دیتا ہے اور لکھنا چاہتا ہے۔ انتظار حسین کے ناولوں اور افسانوں کے حوالے سے ڈاکٹر سہیل احمد خان نے لکھا کہ ’’بستی‘‘ ایک اہم تجرباتی ناول ہے البتہ ’’تذکرہ‘‘ مجھے اتنا پسند نہیں آیا۔ اگرچہ اس میں انتظار کی تحریر کا جادو موجود ہے لیکن اس کا تجربہ مجھے اتنا تہہ دار نہیں لگا۔ دراصل انتظار حسین کا تخلیقی جوہر افسانہ نگاری میں زیادہ بڑی سطح پر نمایاں ہوتا ہے۔ اب تو وہ اپنے افسانوں میں تہذیبی سوالات سے بھی آگے جا کر حیات و کائنات کے بارے میں بعض بنیادی سوالوں تک پہنچ گئے ہیں۔ انکی علامتی کہانیاں اس وقت نقادوں کی توجہ کا مرکز ہیں اور یہ ان کہانیوں کی اہمیت کے اعتبار سے درست رویہ ہے۔ انتظار حسین کی کہانیوں کی مقامی فضا اور انکی نثر کے اس رخ کو بھی دیکھنا چاہیے۔ بطور خاص انکے ناولٹ ’’دن‘‘ کا ذکر کروں گا جس پر تنقیدی توجہ کم ہوئی لیکن اس میں دھوپ اور موسموں کا ذکر کنویں میں گاگر کا گرنا، گیلی مٹی سے مکان کی تعمیر ہونا، موتیے کے پھول غرض کہ مجموعی ماحول بہت ہی جاندار ہے اور پھر وہ افسردگی و ماضی کی خوشبو لیے ہوئے ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے لکھنے والے نے قلم میں سیاہی نہیں دھوپ بھر کر یہ تحریر لکھی ہو‘‘محمد عمر میمن نے انتظار حسین کے متعدد افسانوں کا انگلش میں ترجمہ کیا۔

ای پیپر دی نیشن