لَیکھاں والے

Feb 10, 2016

آغا باقر

والد ِمحترم بتاتے ہیںکہ نارووال کے قصبہ بدوملہی میں مقیم اُنکے ایک دوست فضل کریم جو ایک نہایت محنتی اور ہنرمند دیسی انجینئر تھے اوراپنے مقصد کیلئے اتنے پُرعزم تھے کہ لاہور پہنچے اور شریف برادران سے عید کی نماز کیلئے نکلتے وقت چند نایاب پُرزوں کی خرید کی درخواست کی۔ ہاتھ جوڑتے شریف برادران نے محنتی ہونے میں اُسے اپنا بھی اُستاد مانا۔ موصوف کا خاندان مٹی میںمٹی ہوکر دھونکنی میںیوں کام کرتا کہ لوگ اُنہیں مِٹی والے پکارتے۔ دانا خاک میں مل کر گُل و گلزار ہوتا ہے۔ اتناکامیاب ہوئے کہ خلقِ خُدا نے اُنہیں لَیکھوں یعنی مقدروں والاکا لقب عطا کر دیا۔
ایک سرکاری دورہ کے دوران جنوبی کوریا میںہنڈائی اور ڈیوو جیسے کارخانوں کا مشاہدہ ہوا۔ جس نے خاکسار کے بچپن میں اپنے والد کیسا تھ اتفاق فونڈری کے مشاہدہ کی یاد تازہ کر دی جب وہ کاروبار کے سلسلہ میں نواز شریف کے چچا میاں بشیر سے ملنے گئے۔ فیکٹریوں کے اندر بڑے بڑے روڈ، ریلوے ٹریک، بڑی بڑی بھٹیاں، سینما، ہسپتال، کالونیاں اور ملازمین کا چُھٹی کے وقت ہزاروںسائیکلوں پر ٹھاٹھیں مارتا سمندر! سوچا ایک فیکٹر ی ہزاروں خاندانوں کو پالتی ہے اور آج Effect Trickle Down کے معاشی اُصول کی سمجھ آتی ہے جو بڑے منصوبوں میں صنعت کار کی معائونت سے عام آدمی تک روزگار، صحت، تعلیم اور خوشحالی سے امیر اور غریب کے درمیان خلیج کو کم کرنے پر یقین رکھتا ہے- کوریا میں دیوار پر آویزاں مالکان کی تصویروں میں سے ایک کے قریب رُکتے میزبان نے بتلایا کہ یہ صاحب ٹیکس کرپشن میں ملو ث تھے۔کان کھڑے پوچھاکہ پھر کیا کاروائی ہوئی، جواب ملا پہلے سرزنش پھر برآمدگی اور فیکٹر ی چلانے کا حُکم تاکہ مکمل ٹیکس اور مزدور کو ہنر اور روزگار میسر آتا رہے کیونکہ بھوک دور دیوار پر ناچتی تھی اور مغربی دنیا اُنکے بے ہنر مزدور کو ُمردے نہلانے کا روزگار مہیا کرتے فخر محسوس کرتی تھی۔ یہ کردار انسان صرف اتفاق اور اپنی محنت سے ہی نہیں بلکہ قدرت کی معاونت سے ہی حاصل کر سکتا ہے تاہم ہمارے یہاں ایوب اور مشرف دور میں یہ نسخے ذاتی مفاد اور تنازعات کی بھینٹ چڑھ گئے -
گھر کا جوگی جوگڑا، باہر کا جوگی سُدھ! پاکستانی معیشت دان ڈاکٹر محبوب الحق کی تصویر نظر آئی جن کے پانچ سالہ منصوبوں اور معاشی ترقی سے انسانی خوشحالی کی سوچ کے پیش نظر کوریا نے ترقی کی۔ ملاح کے حقے میں پانی ندارد اور موچی کا اپنا جوتا زبان نکالے دِکھتا ہے۔کبھی ویرانے تھے گُل و گلزار نظر آتے ہیں ۔ بد لے بدلے کورین سرکار آج پاکستان کو بطو ر ڈونر مالی و تکنیکی امداد فرہم کرتے ہیں۔ یہی نسخہ یہاں صنعت کی بحالی، بیرونِ ملک سرمایہ کاری کی واپسی بذریعہ ایمنسٹی یا بیرونِ ملک کاروبار پر ڈبل ٹیکس وصولی کے ذریعے کارگر ہوسکتا تھا-
ٹی وی پر حسین نواز شریف کا انٹرویو دیکھ کرکئی کو حیرت اور کئی کو رشک ہوا جو سیاست سے الگ ایک عملی صنعتکار کے طور پر سامنے آئے- جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے ! موروثی سیاست اور ارتکازی معیشت سے اختلاف کے باوجود معاشیات کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے خاکسار اُنکے پیش کردہ ہنر، شہرت اور حوصلہ سے لیس کاروباری ماڈل کو پاکستان کیلئے کسی حد تک قابل ِقبول سمجھتا ہے۔ مایہ کو مایہ ملے ہے کر کر لمبے ہاتھ! تاہم معاشی ترقی کیلئے ہنر یا علم، لینڈ، لیبراور سرمایہ آج بھی حقیقت ہیں۔ خدا جب حُسن دیتا ہے نزاکت آہی جاتی ہے۔ اُنکے دوسرے دورِ حکومت میںمقام ِ احترام میں ایک ہُو کا عالم تھا! تُند و تیز قانون سازی، سیاستدان ہر جمعہ دوپہر کے وقت ٹھوکرچوک آ کھڑے ہوتے اور پولیس سے حاصل کردہ معلومات پر کہ میاں صاحب جمعہ کی نماز جاتی عمرہ پڑھیں گے آگے چلے جاتے وگرنہ فیض حاصل کئے بغیرواپس پدھار جاتے۔ احترام میں جوتے اُٹھاتے نیاز مندوں کی تعداد میں ہر جمعہ اضافہ ہوتا اور کئی بڑے سیاستدان میاں صاحب کی فرض نماز ادائیگی اور اچانک روانگی پر اپنی نماز ہی توڑ ڈالتے۔
انسان پرکڑا وقت اُسکی اپنی نادانیوں، آزمائش یا دونوں کے مرکب سے آتی ہے۔ 99ء میں مارشل لاء کے کوئی آثار نہ تھے، واقعہ کارگل نیلے آسمان سے بن بادل برسات آ ٹپکا۔ شریف خاندان کو مشکل آن پڑی۔ قریب تمام افراد کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ شاہ سے بڑے شاہ نئے ایوانوں میں ظِل سبحانی کی مالاجھپتے نظر آئے۔ حسین نواز بتاتے ہیں کہ اُنکی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اُنہیں قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔ چِلمیں بھرنے والے کئی پولیس افسروں نے بزرگوں کی ہتک کی۔ تاہم ہمت اُس خاتون اوّل کی کہ جس نے پہلوانوں کا کھایا پلایا حلال کر دیا۔ ٹریفک لفٹر پرگھنٹوں لٹکی گاڑی میں سوار شدید گرمی بھی اُنکے حوصلوں میں ڈنٹ نہ ڈال سکی۔ حسین نواز کے انٹر ویو میں مسرت کُن نرمی اور عاجزی دیکھنے میں آئی جو شایدحالیہ دھرنوں کے مضر اثرات سے نجات کا باعث بنی- غربت نہ نزلہ ہے نہ کینسر جو چند دنوں میں ٹھیک ہو جائے یا جان لے لے، یہ ایسا فالج ہے جو نہ مرنے دیتا ہے نہ جینے۔ کاروباری طبقہ مذہب اور خیرات سے لگائو، اپنے ہنر اور کاروباری صلاحیتوں کی بدولت عالمی تعلقات سے ملک اور قوم کے مفاد میں کارگر ثابت ہو سکتا ہے اور ذاتی مفاد سے بالاتر سعودیہ،چائنہ اور تُرکی جیسے ممالک اور اہم افراد سے مراسم کے سبب بڑی اور کاٹیج انڈسٹری کے پیوندی ٹرکل ڈائون اُصول کے تحت خدمت کر سکتا ہے۔ یہی اپروچ موٹر وے اور اکنامک کوری ڈور جیسے منصوبوں سے عربی کفیل پارٹنرشپ طرز پر عام آدمی کیلئے روزگار فراہم کر سکتی ہے۔ کارپوریٹ سوشل ریسپونسیبلیٹی ایکٹ جوصنعت کار کو 47% غریب عوام کی تعلیم اور صحت کی ذمہ داری سونپتا ہے پر عمل درآمد کرواتے فائیو اسٹار ہوٹلوں سے نچلی اور مستحق سطح تک پہنچایا جا سکتا ہے- مصائب سے نکل کر اعلیٰ منصب پر فائز ہونا قدرت کا انعام ہے- اپوزیشن کی مثبت نشاندہی پر اور صحت اور تعلیم کیلئے علیحدہ علیحدہ 10% بجٹ مختص کرتے خاندان اور عوام دونوں حقیقی لیکھاں والے کہلا سکتے ہیں۔

مزیدخبریں