لاہور (خبرنگار+ خصوصی نامہ نگار+ سپیشل رپورٹر+ کامرس رپورٹر) پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 40 روپے فی لٹر مقرر کرنے کی قرارداد مسترد جبکہ حکومت کی طرف 5 روپے فی لٹر کمی پر وفاقی حکومت کو تحسین پیش کرنے کی ترمیمی قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی گئی، اپوزیشن نے قرارداد میں ترامیم کیخلاف ایوان کی کارروائی سے واک آئوٹ کر کے اسمبلی احاطے میں احتجاج کیا، اجلاس میں 16دسمبر کو آرمی پبلک سکول پشاور کے شہید بچوں کے نام سے منسوب کرتے ہوئے اسے قومی بچوں کا قومی دن قرار دینے سمیت مفاد عامہ کی چھ قراردادیں متفقہ طور پر منظور کر لی گئیں، ڈاکٹر وسیم اختر کی مساجد کو بجلی کے بلوں میں عائد ٹی وی فیس سے مستثنیٰ قرار دینے کی قرارداد مستر د جبکہ شیخ علائو الدین کی بنگلہ دیش میں پاکستان کی محبت میں پھانسی دے کر شہید کئے جانے والے عبدالقادر اور قمرالزمان کو نشان پاکستان دینے کی قرارداد کابینہ ڈویژن اور وزارت داخلہ کی طرف سے جواب آنے تک موخر کر دی گئی، اپوزیشن نے وقفہ سوالات کے دوران پٹوار خانوں سے متعلق سوال کے جواب کو غلط قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج کیا جس پر دونوں اطراف سے ایک دوسرے کیخلاف نعرے بازی کی گئی اور ایوان مچھلی منڈی بنا رہا۔ غیر سرکاری ارکان کی کارروائی کا آغاز ہوتے ہی محمود الرشید نے کہا سپیکر صاحب آپ نے دو مرتبہ وعدہ کیا تھا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے میری قرارداد ایوان میں لائی جائے گی لیکن ایسا نہیں کیا جارہا، مطالبہ ہے میری قرارداد کو قواعد و ضوابط معطل کر کے ایوان میں پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہا مجھے قرارداد کی کاپی دیں میں اسے دیکھ لیتا ہوں۔ ویسے قائد حزب اختلاف اپنے لیڈر عمران خان سے مشورہ کر لیں کیونکہ انہوں نے 20روپے جبکہ یہ پٹرول 40روپے لٹر لکھ رہے ہیں۔ محمود الرشید نے کہا حکومت عوام سے جگا ٹیکس اور بھتہ لے رہی ہے۔ رانا ثناء اللہ دس کروڑ عوام کی سوچ سمجھ کر مخالفت کریں۔ ہم یہاں گھگو گھوڑے نہیں۔ انہوں نے کہا عوام نے حکمرانوں کو ووٹ دے کر غلطی کی اور اب ان کا اصل چہرہ سامنے آ گیا ہے۔ اسی دوران متحدہ اپوزیشن ایوان سے واک آئوٹ کر گئی جبکہ تحریک انصاف کے چند ارکان اپوزیشن لیڈر کے واک آئوٹ کے فیصلے سے نالاں نظر آئے اور ایوان میں رہ کر بات کرنے کا اصرار کرتے رہے تاہم ساتھیوں کے ایوان سے جانے پر مذکورہ ارکان بھی بے دلی کے ساتھ ایوان سے باہر چلے گئے۔ سپیکر کی طرف سے کسی وزیر کو اپوزیشن کو منانے کے لئے بھجوا ئے جانے سے قبل ہی واک آئوٹ پر گئی اپوزیشن ازخود واپس آ گئی جس پر حکومتی ارکان نے نعرے لگائے۔ حکومتی رکن شیخ علائو الدین نے کہا بنگلہ دیشی حکومت کے اقدامات کو پوری دنیا میں ظالمانہ قرار دیا گیا ہے۔ ہم ان کے لئے کچھ اور نہیں تو ایک قرارداد بھی نہیں لا سکتے۔ مصلحتوں کو چھوڑ دیں۔ حسینہ واجد بھارت کے اشارے پر سب کچھ کر رہی ہے۔ محمود الرشید نے کہا شہادت پانے والوں کا یہ جرم ہے کہ وہ پاکستان کا ساتھ دیتے تھے۔ رانا ثناء اللہ نے وسیم اختر کی قرارداد پر کہا مسجد کے ساتھ موذن اور امام کی رہائشگاہیں مسجد کا حصہ ہی تصور ہوتا ہے لیکن وہاں ٹی وی چلتا ہے۔ سپیکر نے اس پر ایوان کی رائے لی اور قرارداد کو کثرت رائے سے مستر دکر دیا۔ جو قراردادیں متفقہ منظور ہوئیں ان میں کہا گیا کہ تعلیمی اداروں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتالوں میں انجیوگرافی کی سہولت دی جائے۔ صوبے میں غیرقانونی طور پر نصب سائن بورڈز ہٹانے، سکولوں کی فیسیں کم کرنے کے فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنانے، جھوٹے مقدمے روکنے کیلئے قوانین میں ترامیم کا مطالبہ شامل ہے۔ عامر سلطان کی غیر موجود گی کے باعث ان کی قرارداد موخر کر دی گئی۔ حکومتی رکن حنا پرویز بٹ نے شناختی کارڈ کیلئے خواتین کی تصاویر اتارنے کیلئے خواتین کی تعیناتی کی قرارداد پیش کی جس کی حکومتی ارکان اسمبلی راحیلہ خادم، عظمیٰ بخاری نے مخالفت کی تو رانا ثنا نے اسے موخر کرنے کی سفارش کی۔ قائد حزب اختلاف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا پانچ روپے فی لٹر کمی عوام سے بھونڈا مذاق ہے۔ پٹرول کی قیمت چالیس روپے فی لیٹر مقرر کی جائے۔ رانا ثناء اللہ نے ترمیمی قرارداد پیش کی کہ یہ ایوان پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ پانچ روپے فی لٹر کمی کے فیصلے کو تحسین کی نظر سے دیکھتا ہے۔ سپیکر نے اس پر ووٹنگ کا آغاز کیا تو اپوزیشن نے احتجاج شروع کر دیا۔ محمود الرشید نے کہا یہ چمچہ گیری ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری شازیہ راحیل نے محکمہ مال سے متعلق سوالات دئیے جبکہ محکمہ کالونیز کے پارلیمانی سیکرٹری کی علالت کے باعث ان کے وقفہ سوالات کو موخر کر دیا گیا۔ پارلیمانی سیکرٹری نے ایوان کو بتایا لاہور میں پٹواریوں کے 251 میں سے 171دفاتر غیر سرکاری عمارتوں میں قائم ہیں اور حکومت ان کے کرائے کا انتظام کرتی ہے جس پر سوال کی محرک ڈاکٹر نوشین حامد نے کہا محکمے نے غلط جواب دیا ہے، کرایہ پٹواری ادا کرتے ہیں، انہوں نے نجی سٹاف بھی رکھا ہوا ہے۔ نوشیں حامد نے ضمنی سوال میں کہا کس مد سے ادائیگیاں کی گئی ہیں اس کے ثبوت دئیے جائیں جس پر اپوزیشن نے شور شرابہ شروع کر دیا۔ اس دوران اپوزیشن ارکان پٹواری کلچر ختم کرو، گو پٹواری گو اور گو نواز گو جبکہ حکومتی ارکان گو عمران گو اور رو عمران رو کے نعرے لگاتے رہے۔ اپوزیشن ارکان کے مطمئن نہ ہونے پر سپیکر نے سوال کو موخر کر دیا۔ رانا ثناء اللہ خان نے کہا لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن کا کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے جس کے بعد صوبے سے پٹواری کلچر کا خاتمہ ہو جائے گا۔ شہباز شریف ایک ماہ میں اس کا افتتاح کرینگے۔ بعدازاں سپیکر نے ایجنڈا مکمل ہونے پر اجلاس آج صبح دس بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا۔ آئی این پی کے مطابق اپوزیشن نے غنڈہ ٹیکس نامنظور، بھتہ خوری نامنظور کے بھی نعرے لگائے۔ آن لائن کے مطابق اجلاس کے مقررہ وقت پر کوئی رکن موجود نہیں تھا، گیارہ بجکر پانچ منٹ پر 2اپوزیشن ارکان اور 3حکمران جماعت کی نمائندہ خواتین اسمبلی میں موجود تھیں جن کو پنجاب اسمبلی ہال کے 5 معمر ترین دربانوں نے ایجنڈا پیش کیا۔ حکومتی رکن اسمبلی طارق محمود نے کہا 2 سوالات کی باری نہیں آئی جبکہ ان کے جوابات محکمے نے غلط دئیے ہیں۔ ان سوالات کو پینڈنگ کر دیا جائے جس پر سپیکر نے کہا وقفہ سوالات ختم ہو گیا ہے، تمام سوالات کے جوابات ٹیبل کر دئیے گئے ہیں جس پر رکن اسمبلی نے کہا میرے پاس ثبوت موجود ہیں جوابات غلط ہیں جس پر سپیکر نے سنی ان سنی کرتے ہوئے رکن کو بیٹھا دیا اور کہا تحریک استحقاق لے آئیں سوالات کو پینڈنگ نہیں کریں گے۔