ہمارے یہاں غربت اور ذاتی زندگی میں کسمپرسی کی وجہ سے اکثر لوگ جعلی عاملوں اور جعلی پیروں کا شکار ہوجاتے ہیں ،جو ا ن مشکلات میں گھرے ان سادہ لوح لوگوں کو اپنی جھوٹی کرامات دکھا کراپنے چنگل میں پھنسالیتے ہیں اور مختلف انداز میں ان کی جیبوں سے پیسے نکلوالیتے ہیں ،بعض اوقات معاشرے کے ستائے لوگوں میں جن بھوت نکالنے کا کہہ کر ان پر اتنا تشدد کرتے ہیں کہ لوگ اکثر یا تو اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں یا پھر اس جعلی پیر کے ہاتھوں ہلاک ہوجاتے ہیں ،یقینا یہ معاشرے کا ایک المیہ ہے ہم یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ سارے مسائل کا حل ان ہی جعلی عاملوں کے پاس موجود ہے اور یہ ہی وہ لوگ ہیں جو ہمیں مشکلات میں گھری زندگی سے نکال کر عیش وآرام کی زندگیاں دے سکتے ہیںجبکہ کچھ لوگ خود تو بہت مالدار ہوتے ہیں مگر اس قدر تنگ دل ہوتے ہیں کہ اپنے رشتے داروں اور کاروباری حلقوں پر بندش کرواکر انہیں تباہ وباد کرنے کے در پے ہوتے ہیں یہ طریقہ کار زیادہ تر رائج ہے کہ اپنے مخالف کو جادو ٹونوں میں جکڑ دیا جائے یا اس طرح بندھوادیا جائے کہ وہ فلاں آدمی کا تابع دار یا محتاج ہوجائے ، یہ باتیں یقینا سمجھ سے بالاتر ہوتی ہیں مگر اس کا تعلق سو فیصد حقیقت سے آپ اپنے ارد گرد نظریں دوڑائیں ممکن ہے آپ کو اپنے رشتے داروں یا پھر اپنے ہی گھرمیں ایسا شخص مل جائے جو اس طرح کے کاموں میں ہے میں یہ نہیں کہتا کہ ہمیں ان گھریلوں لوگوں پر کسی قسم کا قانون لاگو کرنا چاہیئے لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اس قسم کے جعلی پیروں کی روک تھا م کی جائے جو اس وقت جگہ جگہ بازاروں میں آپ کو باآسانی نظر آجائےںگے ان کی دکانوں پر نیلے پیلے لال شیشوں پر لکھے ایسے حروف کہ آپ کی ہر مشکل کا حل صرف ایک ملاقات "محبوب آپ کے قدموں میں "کاروباری بندش" پسندکی شادی"روٹھے ہوئے کو منانا" دولت کی فراوانی کے لیے رجوع کریں " بے اولادی سے نجات " لڑکے کی پیدائش ”عامل بابا یا بنگالی بابا“ ایسے بے شمار جملے لکھے ہوتے ہیں کہ اب جبکہ آدمی ہو ہی پریشان تو بھلا ایسے میں اس کی عقل کہاں کام کرتی ہوگی یقین جانیے میں نے بہت بڑے بڑے مفکرین اور بڑے
بڑے ذہین لوگوں کو ان جعلی پیروں کے ہاتھوں بے وقوف بنتے دیکھا ہے جنھیں دیکھ کر ایسا لگتاہے کہ جب ایسے باشعور لوگ اس قدر آسانی سے ان جعلی پیروں کے ہاتھوں لٹ جاتے ہیں تو ایسے میں ان غریب اور نادار لوگوں کو کیسے روکا جاسکتاہے ؟جن کی وجہ سے ان لوگو ں کی دکانوں پر رش لگا ہوتاہے ،جب ایک باشعور آدمی الو کاخون اور قبروں پر رات گئے چلے کاٹنے پر مجبور ہوجائے تو پھر ان دانشوروں کا کیا اچار ڈالناہے جن کی عقلمندی کی مثالیںہم اکثر اپنے دوستوں کو نوازتے رہتے ہیں یقیناً یہ بات غور طلب و فکر انگیز ہے کہ اس مسئلے کا حل پھر کیسے نکالا جائے ؟۔ پہلے حل تو یہ ہونا چاہیے کہ ان جعلی پیروں اور عاملوں کی روک تھا م کے لیے مقامی انتظامیہ کے تحت کارروائی ہونی چاہیے یعنی ان کے اڈوں کا خاتمہ مقامی انتظامیہ اور پولیس کو ان کی تمام حرکتوں اور کاروبار کا پتہ ہوتاہے لہذا ان کا یہ فرض ہے کہ ان عناصر کے خلاف کارروائیاں کرکے اپنے علاقے کے لوگوں کو ان جعل سازوں سے بچائیں،جعلی پیروں کے جابجا ٹھکانوں سے یہ اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ پولیس اور مقامی انتطامیہ ایسے عناصر کو نظر انداز کردیتے ہیں جس کے وجہ سے یہ لوگ اپنے ٹھکانوں کو مظبوط بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ،اس کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کی جانب سے اپنے اپنے علاقوں میں عام آدمی میں آگاہی مہم بھی چلائی جائے کہ وہ خود کو ان جعلی پیروں سے دور ہی رکھیںتاکہ وہ ان جعلی پیروں کی ہوشیاری سے بچ سکیں اور وہ ایسے عاملوں کے پاس جانے کی بجائے اپنی زندگیاں اسلامی اصولوں اور تعلیمات کے مطابق گزار سکیں یقینا اس عمل سے اللہ ضرور برکت دے گا۔البتہ یہ ضرور ہے کہ آپ پڑھے لکھے عالم دین اور باشعور لوگوں سے رابطہ کریں جعلی پیروں کا بندوبست صرف حکومتی کارروائیوں سے ہی ممکن نہیں ہوسکے گابلکہ اس میں لوگوں کو خود بھی فہم وفراست سے کام لینا ہوگاخصوصا ًکم تعلیم یافتہ اور ان میں بڑی تعداد خواتین کی ہوتی ہے جو اس جعلی پیروں کے پاس جانے کے مرض میں مبتلاہوتی ہیں انہیں اس کام سے روکنا چاہیے میں اعلیٰ حکام سے آخر میں یہ ہی کہوں گا کہ وہ اس سلسلے میں جلد سے جلد نظر ثانی کریں اور کسی بھی بڑے حادثے یا سانحے کا انتظار نہ کریں بلکہ اپنے تجربے اور صورتحال کا جائزہ لیکر عوامی نقصانات کے رونما ہونے سے پہلے روکیں اس سے پہلے کہ کہ کوئی جعلی پیر کسی غریب کا جن نکالنے کے بہانے اس کے جسم سے اس کی جان ہی نہ نکال دے۔
مفلسی کے شکار لوگ اورجعلی پیروں کا شہر
Feb 10, 2017