حافظ سعید ۔ مسیحا بھی ”دہشت گرد“ بھی؟

Feb 10, 2017

حافظ محمد سعید کی پیدائش 1948 میں اس وقت ہوئی جب ان کا خاندان انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچا۔ ہجرت کے اس سفر میں ان کے خاندان کے 36 افراد شہید ہوئے۔ خاندان کا کوئی بچہ زندہ نہ رہا۔ حافظ محمد سعید کا بچپن سرگودھا میں گزرا ۔ نیٹ زریعہ کے مطابق وہ حافظ قران ہیں اور یہ سعادت انہوں نے اپنی ماں جی حاصل کی۔حافظ سعید کے جرائم کی طویل ترین فہرست ہے وہ یہ جرائم بار بار کرنے کا عندیہ دیتے ہیں اور اسی عندیہ نے عوام میں انہیں مقبول ترین بنا دیا ہے۔
پروفیسر حافظ محمد سعید اپنے مذہب اور ملک کی سنجیدہ شخصیت کا نام ہے۔ وہ اسلام، اس کی حقانیت، وطن اور اس کی حقیقت کی بات کرتا ہے۔
اس کے سینے میں اخلاص و خلوص، ہمدردی و ایثار سے لبریز ایک دل ہے جو دین اسلام کے لئے دھڑکتا اور وطن و ہم وطنوں کے لئے تڑپتا ہے۔ اس کا جرم یہ ہے کہ اس نے ہزاروں طلباءکو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔
ان کے عقائد و نظریات کی اصلاح کی، ملک کے معروف تعلیمی ادارے انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں پچیس برس تک معلم و عربی اور شعبہ علوم اسلامیہ کے چیئرمین کی حیثیت سے کام کیا۔
وہ معلم آج مجرم کیسے ؟
انڈیا کی حکومت انہیں دہشت گردقرار دیتی ہے اور بھارتیوں کی ایک بڑی تعداد انہیں ایسا ہی سمجھتی بھی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ایک ملنساراور ایسی انسان دوست شخصیت ہیں جن کے ہزاروں کارکن ہر آفت میں عوام کی مدد کرنے اور ان کی جانیں بچانے میں سب سے آگے ہیں۔
2005میںزلزلے کی شدت نے جب پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیا، ہزاروں انسان جب اس میں دب گئے اور لاکھوں بے سرو سامانی کے عالم میں
ننگی زمین پر نیلے آسمان کے نیچے کسی مسیحا کے منتظر تھے تو وہ حافظ محمد سعید تھے جنہوں نے ہم وطنوں کے کرب و درد کو محسوس کرتے ہوئے بلاامتیاز و تفریق سب کی خدمت کی اور سب سے پہلے کی۔
سندھ کے سیلاب نے جب ہر چیز کو غرق کر دیا کہیں باپ کے سامنے بیٹا اور کہیں بیٹے کے سامنے ماں، باپ ڈوبتے نظر آئے۔ انسانوں نے انسانوں کو بے بسی کے عالم میں غرق ہوتے دیکھا۔ جب جنوبی پنجاب اور سندھ کے صحرا دریا کا منظر پیش کر رہے ہیں، پانی مکانوں کی چھتوں کے اوپر سے گزر رہا تھا، مکینوں کے لئے کوئی مکان اور کھانے پینے کیلئے کوئی سامان میسر نہیں تھا، جان لینے والی پانی کی موجیں ضرور تھیں مگر جان بچانے کے لئے صاف پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں مل رہا تھا۔ لوگوں کے مال و مویشی، فصل یہاں تک کہ نسل بھی پانی کی موجوں کی نذر ہو گئی تو ان کٹھن حالات اور مشکل اوقات میں کس نے ہم وطنوں کے حق میں آواز بلند کی، کس نے آگے بڑھ کر مظلوموں اور بے سہارا انسانیت کی خدمت کا اعلان اور اس پر عملدرآمد کیا۔ اپنی ذات کیلئے نہیں دکھی انسانیت کیلئے اہل ثروت حضرات کے تعاون سے بلا امتیاز سب کی خدمت کی۔
مسلمان تو مسلمان ہندو مرد و خواتین کو اس مصیبت سے نجات دلائی۔ وہ نجات دھندہ آج مجرم کیسے؟
ہسپتال، ڈسپنسریاں، ایمبولینسز، میڈیکل کیمپس، تعلیمی ادارے، رفاہی ادارے، یتیموں کی کفالت، مریضوں کا مفت علاج، تبلیغ دین کے مراکز اور سجدہ گاہوں (مساجد) کی تعمیر، یہ جرم ہے جس نے حافظ محمد سعید کو مجرم بنا دیا ہے۔ ایسا مجرم جس کو ملک کی چھوٹی بڑی عدالتوں نے جرم ثابت نہ ہونے پر باعزت رہا کیا ہے۔ ایسا پرامن شخص کہ جس کی بار بار گرفتاری پر نہ درخت کا پتہ گرا اور نہ ہی کسی گاڑی کا شیشہ ٹوٹا، نہ ٹائر جلائے گئے اور نہ ہی ملکی اثاثہ و املاک کو نقصان پہنچا، جس پر ہندوستان نے بے بنیاد الزامات لگائے، مگر اس کی جماعت نے سندھ میں بسنے والے ہندوﺅں کی بھی مشکل گھڑی میں ہمیشہ مدد کی۔
اگر جماعت الدّعوة کے سربراہ حافظ سعید کا تعلق کسی اور مذہب سے ہوتا تو دنیا بھر کے انعام و اکرام سے ا±ن کو نوازا جاتا۔ حافظ سعید کا جرم یہ ہے کہ وہ ایک مسلمان ہیں۔ ا±ن کا قصور یہ ہے کہ وہ امریکا، انڈیااور اسرائیل کی طرف سے مسلمانوں پر ڈھائے جانے مظالم پر خاموش نہیں رہ سکتے۔ حافظ صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کو کمزور کرنے کی عالمی سازشوں کے خلاف کھلے عام آواز ا±ٹھاتے ہیں اور اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک کو امریکا کی غلامی سے آزاد کرنے کی جدّوجہد میں مصروف ہیں۔ حافظ سعید اور ا±ن کی تنظیم اس لیے بھی اسلام دشمنوں کو کھٹکتی ہے کیوں کہ وہ امّت مسلمہ کا درد رکھتے ہیں۔وہ اکثر کہتے ہیں کہ انگریزوں نے مسلمانوں کو سیاسی، مذہبی، سماجی، اور معاشی طور پر کمزور کرنے کیلئے جو منصوبے بنائے ان میں سے ایک منصوبہ آل انڈیا نیشنل کانگریس کا قیام تھا۔ 1857ءکی جنگ آزادی کے ربع صدی بعد جب ابھی مسلمانوں کے زخم تازہ تھے ایک انگریز سرکاری ملازم ایلن آکیٹوین ہوم نے آل انڈیا نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی۔ من جملہ دیگر مقاصد کے کانگریس کے قیام کا ایک مقصد یہ تھا
کہ انگر یز اور ہندو باہم مل کر مسلمانوں کا مذہبی و معاشی استحصال، انکی بچی کھچی طاقت اور ان کے سماجی مقام ومرتبہ کا خاتمہ کیسے کر سکتے ہیں۔وہ یہ راز کھول دیتا ہے مگر سمجھ کسی کو نہیں آتی۔اسے صرف پاکستان عزیز ہے ۔۔دین محمدی کا فروغ عزیز ہے،جہاں بھر میں بسنے والے مسلماں عزیز ہیں،وہ خیر خواہ سب کا ہے پھر بھی امریکہ سر کی قیمت لگا دیتا ہے؟
کیا حافظ سعید کا نا م پانامہ لیکس میں آیا،کوئی قرضہ معاف کرایا،کوئی فیکٹری لگائی، جائیداد بنائی،کسی عزیز کو نوازا،کوئی کرپشن کی ۔۔اگر جواب نفی میں ہے تو پھر اپنے ہی گھر میں نظر بند کیوں؟ اس بار حافظ سعید کے بغیر یوم یکجہتی کشمیر منایا تو گیا مگر وہ سج دھج‘ وہ ولولہ دیکھنے کو نہ ملا۔ حافظ سعید کی للکار بھارتی ایوانوں میں کپکپی طاری کر دیتی تھی۔ اس بار یہ للکار حکومتی نظربندی کا شکار ہوئی۔ آنے والے دنوں میں اﷲ خیر کرے۔

مزیدخبریں