شہر لاہور کی فریاد

آج کا کالم لکھنے کے لئے اس سوچ میں ڈوبا ہوں کہ کس ایشو پر قلم اٹھائوں۔ پوری دنیا حقیقی پہلو سے ایک گائوں بن چکی ہے ایک ملک میں ہونے والے کسی بھی اہم واقعہ کا اس تیز رفتاری سے پل بھر میں چار سو چرچا ہوتاہے جیسے استاد ذوق نے اپنے محبوب بادشاہ کے پسندیدہ گھوڑے کی تیز رفتاری کا یوں ذکر کیا تھا ’’جو نکلے زباں سے چین میں تو ’’ل‘‘ لندن میں یعنی چین میں بیٹھ کر بادشاہ جب لندن جانے کے لئے لفظ چل کا پہلا حرف زبان سے نکالتے ہی ہیں تو دوسرا حرف سنائی دینے سے ساتھ ہی گھوڑا لندن پہنچ چکا ہوتا ہے۔ استاد ذوق کے زمانے میں یہ انداز بیان مبالغہ کی اتنہاء سمجھا جاتا تھا لیکن آج کی دنیا میں ٹیکنالوجی کے دور میں ہر شعبہ زندگی میں ہم اس برق رفتاری کم کمپیوٹر اور موبائل کے استعمال میں ہر لمحہ مشاہدہ کرتے ہیں۔ لاہور شہر کا دنیا کے قدیم شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 1930ء کی دہائی میں جب راقم گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا تو پورا شہر اپنے تاریخی 14 دروازوں کے اندر موجود تھا اب ایک صدی کے اندر آج کا لاہور رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے اس قدر پھیل چکا ہے وہ یقینی طور پر احاطہ بیان سے باہر ہے۔ قدیم سے جدید بننے کے دور میں طرح طرح کے دلچسپ نعرے بھی انتخابات کے موقع پر ہر پانچ سال کے بعد فضا میں گونجتے ہیں کہ پاکستان کے ہر بڑے شہر کو لندن‘ پیرس‘ روم اور واشنگٹن بنا دیا جائے گا لیکن شہروں کے درمیان موٹر ویز شہروں کے اندر رنگ روڈز اور میٹرو بسیں اور اورنج ٹرینز ضرور بن رہی ہیں لیکن پورے ملک میں تمام اضلاع تحصیلوں اور دیہات میں منصوبہ بندی کا نیٹ ورک کئی وجوہات کی بناء پر متوازن نہ ہونے کے باعث ترقی اور ڈویلپمنٹ کا بڑا حصہ چند مخصوص شہروں تک محدود رہ جانے کے باعث اجتماعی سطح پر آبادی کی اکثریت ترقیاتی منصوبوں کے گراس روٹس تک نہ پہنچنے تک طرح طرح کی محرومیوں نے شکایات کے انبار لگا دیئے ہیں۔ چنانچہ اس حقیقت سے قطع نظر کہ ہر صوبہ میں چند ایک مخصوص شہروں کے علاوہ جہاں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبہ جات زیر تکمیل ہیں۔ بعض پسماندہ علاقوں کی طرف سے کم و بیش تمام صوبائی حکومتیں ان پسماندہ علاقوں کی وسیع محروم آبادیوں کو گزشتہ 70 برس کے غیر منصفانہ ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کے باعث وہاں کی آبادیوں کی محرومیوں میں شدید اضافہ کیا ہے۔ چھوٹے صوبوں کو گلہ ہے کہ بڑا صوبہ کئی وجوہات کی بناء پر اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ اور بڑے صوبے میں حزب اختلاف کی جماعتوں کو اسرار ہے کہ صوبے کے مختلف شعبوں میں فنڈز کی تقسیم منصفانہ نہیں ہے جس کی وجہ سے ترقیاتی منصوبوں کا بڑا حصہ صوبہ دار الخلافہ لاہور شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے میں ایک ایسے خطرناک سائیکل کی خوفناک صورت اختیار کر چکا ہے جو ایک بے قابو جن بن گیا ہے جو بظاہرکنٹرول سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔
گزشتہ روز پاکستان نیشنل فورم کے ایک اجلاس میں اس بے قابو جن کے نا قابل کنٹرول کل پرزوں پر غور کیا گیا۔ ایک سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس نے نہایت سنجیدگی سے کہا کہ بڑھتی ہوئی جے پاپولیشن ایکسپوین کا نام دیا جاتا ہے سب سے سنگین مسئلہ ہے۔ جس پر اگر فوری توجہ نہ دی گئی تو تمام ترقیاتی منصوبوں پر پانی پھیر جائے گا۔ ہمارے ایک اور معزز ممبر جو وفاقی سیکرٹری داخلہ رہ چکے تھے ان کا کہنا تھا کہ آبادی پر کنٹرول تو اپنی جگہ لیکن لاہور شہر کی فریاد ہے کہ تیزی سے پھیلتے ہوئے موذی ٹریفک پر قابو پانے کے لئے اگر ایمرجنسی اقدامات نہ کئے گئے تو شہر لاہور کی چھوٹی بڑی تمام سڑکوں پر دو سال کے اندر ٹریفک CHO ہو جانے کا ہنگامی خطرہ ہے۔ ہمارے ایک سابق میئر لاہور کا کہنا تھا کہ خدا کے لئے شہر لاہور کے سیوریج سسٹم کے لئے فوری طور پر اصلاحی اقدامات کئے جائیں ورنہ دو گھنٹے کی متواتر بارش کے بعد پورا شہر اٹلی کے سمندر شہر وینس کا نمونہ بن جاتا ہے۔ جہاں گلی بازاروں میں ندی نالے بہتے نظر آتے ہیں۔ ایک سابق وزیر تعلیم نے شہر لاہور کے بچوں اور والدین کی طرف سے فریاد کی ہے کہ جگہ جگہ گلی محلے اور پوش ایریا میں ہزاروں کی تعداد میں سکول کھل جانے سے صبح سکول جاتے وقت اور دوپہر کو گھر لوٹتے وقت بچوں کے رش کی وجہ سے سارے لاہور کی سڑکیں بلاک ہو جاتی ہیں انہی اوقات میں دفتروں اور کاروباری و بزنس کلاس کے سڑکوں پر آنے سے لوگوں کا دم گھٹنے لگا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پیدل سفر کے علاوہ اور کوئی عملی طریقہ کار ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا باقی نہیں رہ جائے گا۔ لیکن لاہور کی بڑھتی ہوئی آبادیاں ایک طرف بھارتی سرحد تک پہنچتی نظر آتی ہے تو دوسری طرف لاہور پھیلتے پھیلتے ایک طرف شمال میں گوجرانوالہ اور جنوب میں ملتان روڈ اور قصور تک شہر کی حدیں جا ملی ہیں۔ اس پر نظم و نسق چلانے‘ ایڈمنسٹریشن کو برقرار رکھنے مریضوں کو ہسپتال میں داخل کرنے اور یہاں تک کہ اب بعد از مرگ ایک عام غریب آدمی کو دو گز زمین بھی دفن ہونے کے لئے میسر نہیں ہے۔ بے شک پاکستان ایک روشن مستقبل کی طرف آگے بڑھ رہا ہے لیکن شہر لاہور کے دو کروڑ کے لگ بھگ باسیوں کی درخواست ہے کہ تمام تر ترقی کے باوجود نقل وحرکت کے لئے ارباب اقتدار سنجیدگی سے سوچیں پیشتر اس کے کہ دیر ہو جائے۔

ای پیپر دی نیشن