عقل عیار ہے ، سو بھیس بدل لیتی ہے

Feb 10, 2017

نذیر احمد غازی

فطرت کا راستہ روکنا کتنا نا ممکن ہے اس حقیقت کا ادراک کسی بھی ایسے شخص کو بخوبی ہے کہ جس نے دنیاوی زندگی کا احساس اپنے باطن کے زندہ حواس سے کیا ہو۔کل کیا ہوا تھا، محرکات کیا تھے؟ اور کل کیا ہو جائے گا؟ فلک کی بلندی پر سے قیاس کا سرمایہ شاید کوئی حاصل کر لے، لیکن راستے کی کنجی تو بالکل اور درست تر نتائج سامنے لا کر رکھ دیتی ہے، روکنے والے آسمانی فیصلوں کو اپنے قوت بازو سے نہیں روک پاتے، ان کو بالآخر اسی راہ پر مجبوراً چلنا ہے جس راہ کا تعین ایک نظام نے کر دیا ہے۔ درست ہے کہ کچھ افراد اور اقوام کی بے راہ روی مستقبل کے نقشوں میں سے کچھ رنگ اڑا دیتی ہے لیکن وہ حقیقت جس سے ہم بے خبر ہیں یا بے بس حالات ہمیں سوچنے ہی نہیں دیتے اس پر ہمارا کتنا اختیار ہے؟مسلمان آج کا مسلمان کتنے طویل عرصے سے ان لوگوں اور ان جابروں کا شکار ہے، جو سازش کرتے ہیں اور پھر تماشہ سجاتے ہیں اور آخر میں انسانیت کی تذلیل کیلئے بے شرم ہو جاتے ہیں۔
بے شرمی عیاں ہو گئی، انسانی غیرت کے معیار واضح ہو گئے مکرو فریب کو اپنی دانش کا سرمایہ قرار دینے والے اب اپنی حیوانیت کو انسانی لبادہ اوڑھانے میں بری طرح سے ناکام ہو گئے ہیں اور وہ بائولے پن میں اتنا بڑھ گئے ہیں کہ وہ مذہب انسانیت اسلامی اور اس کے پیرو کاروں کو اپنی ذلت آمیز ہوس جبر افزائی کا کھلم کھلا شکار کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔وہ انسانوں کو رنگ، علاقہ اور بے بنیاد چھوٹے بڑے کے معیار پر تقسیم کرنے کی ضد کر رہے ہیں، وہ فرعون کے دل کو اپنی نام نہاد دانشورانہ بین الامی سوچ کا سہارا دیکر انساینت کو نابود کرنا چاہتے ہیں۔امریکہ کا انسان دشمن ٹرمپ کچھ کہتا ہے کچھ احکام جاری کرتا ہے زبان میں انسانیت کے اخلاق کا کوئی اثر نظر نہیں آتا، احکامات میں کہیں بھی شرافت انسانی کا ذوق دکھائی نہیں دیتا۔اس نے نہایت بے باکانہ اور غیر منصفانہ انداز میں مسلمانوں کو للکارا ہے، ان کا راستہ روکا ہے، بین الاقوامی آداب و حقوق کو پس پشت ڈالا ہے اور جابرانہ انداز سے سینہ پھلا کر اپنی ضد پر قائم ہے، اس نے مسلمان ملکوں کو بے جا دہشت گرد قرار دیا ہے اور مسلسل بضد ہے کہ اس کی بے پر کی سوچ بالکل درست ہے۔درون خانہ وہاں کی عدالت نے جواز حکم کو تسلیم نہیں کیا اور فیصلہ اس متعصب و عنید کے حکم کے خلاف دیا ہے، لیکن وہ غیر جمہوری اور نا منصفانہ سوچ کا مالک تمام آداب سے ہاتھ اٹھائے ، زبان دراز کیے ہوتے ہیں کہ میرے اسلام و مسلمان دشمن فیصلے سے اختلاف کرنے والے امریکی عدالت کے ججز قومی سلامتی پروار کر رہے ہیں۔ہر جابر بادشاہ پر جابر معاشرہ، ہر جابر ملک ، در اصل غریب ، مفلوک الحال ، پسماندہ اقوام کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جبر کے تخت کو مضبوط کرتے ہیں۔ہر جابر سلطنتیں ڈاکوئوں کے انداز میں جبرو فریب سے دنیا بھر کی اقوام کے ہنر پیشہ افراد کی صلاحیتوں کا صدقہ وصول کرتی ہیں، مکرو فریب اور جھوٹ بالکل اندھے جھوٹ کا سہارا لیکر وہاں کی معدنی دولتیں لوٹتے ہیں۔ وہاں کے سر سبز و شاداب کھیتوں کا کمائی سے اپنی تجوریوں کو بھرتے ہیں۔ امریکہ بالکل بے ہنر ہے‘ بے دولت ہے‘ بے اخلاق ہے، اس کا ہنر اس کی دولت اور اس کا کوئی بھی سفارتی رویہ پسماندہ اقوام کی معاشرتی کسمپرسی کا نتیجہ ہے۔وہ عیاش بے حس اور دولت کے پجاری مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کی نبض پر ہاتھ رکھتا ہے، اور ان کے دلوں کی دھڑکنوں کی رفتار پر نظر رکھتا ہے، پھر وہ اس مجموعی بے حسی کا تجزیہ کرتا ہے اور ان کی غیرت ملی کے گراف کو دوبارہ ٹٹولتا ہے تو وہاں پر تو صفر کی راجدھانی نظر آتی ہے۔پھر وہ ہماری دین کو اور اہل دین کو للکارتا ہے، جو کچھ مزاحمت کا مظاہرہ کرتے ہیں ان پر بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا الزام بے جا دھرتا ہے، اور جو سہم جاتے ہیں ان کو چمکاتا ہے اور بہت ہی سستے داموں ان کو ان کے دعویٰ دینداری سمیت خرید لیتا ہے۔ ان پر غفلت کے پردوں کے رنگ آشکار کرتا ہے ان کا دل ڈالروں کے نام پر پسیج جاتا ہے پھر ایسے امریکہ دوست اپنے دوست اور دوست کے سر پرستوں کیلئے اپنے دل میں رقت پیدا کرتے ہیں۔کسی ایک گندم نما جو فروش نے دینی غیرت کے دفاع پر ایک سوال کے جواب میں کہا تھا اگر ہم ہر مرحلے پر اسلام کے دفاع میں اقدام کرنا شروع کر دیں تو ہمیں اپنی بین الاقوامی ساکھ بگڑتی ہوئی نظرآتی ہے، ہمیں امریکہ کی آشیر آباد سے بھی محروم ہونا پڑے گا اور ہم کسی بھی وقت اپنے ہی وطن میں محبوس کر دیئے جائیں گے اور ہمیں ویزے بھی نہیں ملیں گے۔ہمیں امریکہ جا کر اپنی خوش بیانی کے جوہر دکھانے میں وقت نہیں آئے گی اور پھر ہم ڈالر کیسے کمائیں گے، ہمیں بہت ضرورت ہے کہ ہم امن و آشتی سے اپنے رزق کا دائرہ بڑھائیں سوال پوچھنے والے نے پوچھا اے حضرت ابھی تک بہت کچھ آخرت میں بھی ملے گا۔ شیخ نے جواب میں فرمایا:
اب تو عیش سے گزرتی ہے
عاقبت کی خدا جانے
وہ قوم جس کے لیڈر عافیت نااندیشی سے آج کے فیصلے کرتے ہیں، ان کی عافیت خدا کے غضب کا شکار ہوتی ہے، نہیں بلکہ ان کے حال کے احتساب کیلئے فطرت ٹرمپ جیسے جلاد کو سر پرلا کھڑا کرتی ہے۔
عزت سے منہ پھیر کر زندگانی کا سفر جاری رکھنے کا خیال بالآخر پائوں توڑ دیتا ہے، ہمت کو شکستہ کرتا ہے اور طائر لاہوتی کو بھی کرگس کی ہمنوائی پر مجبور کرتا ہے۔

مزیدخبریں