بسنت کا تہوار۔۔۔۔۔ کیمکل اور دھاتی ڈور نے لہو رنگ کر دیا تھا

Feb 10, 2017

خالد یزدانی
بسنت کا تہوار قیام پاکستان سے پہلے پنجاب میں ان دنوں منایا جاتا تھا جب سرد موسم رخصت ہو رہا ہو اور بہار کی آمد آمد ہو اور پنجاب کی زرخیز زمین پر سرسوں کے پیلے پیلے پھول چارسو پھیلے نظر آئیں ان دنوں کھلے میدانوں میں اور کھیت کھلیانوں کے قرب و جوار خوشی کا سماں ہوتا تھا اور زیادہ تر لوگ بسنتی لباس زیب تن کرتے تھے‘ رفتہ رفتہ بسنت کا تہوار جو میلوں ٹھیلوں کی صورت ہوا کرتا تھا میں نوجوان پتنگیں بھی فضا میں بلند کرنے لگے‘ تاریخ کے مطابق قدیم دور سے پتنگ بازی کی ابتدا چین سے ہوئی البتہ ان کے ہاں پتنگوں کی شکلیں عجیب و غریب ہوا کرتی تھیں اور وہ زیادہ تر ساحلی علاقوں میں ہی یہ شوق پورا کیا کرتے تھے۔ برصغیر میں بھی ابتدائی دور میں شہر بھی اتنے گنجان آباد نہ تھے جتنے آج ہیں۔ آج صرف لاہور کو ہی دیکھ نہیں تو مغل ادوار میں بارہ دروازوں کے اندر محدود شہر آج میلوں دور‘ دور تک پھیل چکا ہے اور اب تو لاہور ایک طرف قصور رائے ونڈ دوسری طرف گوجرانوالہ اور شیخوپورہ تک وسیع ہو گیا ہے۔ آبادی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ بڑی بڑی بلڈنگوں کی وجہ سے لاہور گنجان ترین شہروں میں دنیا کے بڑے اہم شہروں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے اور روپے کی فراوانی کے ساتھ دیگر شعبوں میں ترقی نے معیار زندگی بدل کر رکھ دیا اور اسکا اثر بسنت پر بھی پڑا‘ بسنت جو کبھی کھلے میدانوں میں یا کسی کسی ایک منزلہ یا دو منزلہ مکان کی چھت پر منچلے پتنگوں کو فضا میں بلند کرنے لگے تھے اور چند روز تک محدود رہنے والا یہ تہوار بھی تیزی سے ترقی کرنے لگا۔ اور پھر بڑی بلڈنگوں‘ پلازوں اور شام سے رات تک روشنیوں اور گانوں کے ساتھ ”بوکاٹے“ کی آوازوں کے علاوہ گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے لرزنے لگا اور دن میں دھاتی ڈور شاہرا¶ں پر موٹر سائیکل سواروں کے گلے کاٹنے لگی جبکہ ابتدا میں چھت سے پتنگ اڑاتے یا سڑک پر کٹی پتنگ لوٹنے کے دوران کسی کے زخمی ہونے کی اکا دکا اطلاعات ہی سامنے آتی تھیں اور جیسے جیسے بسنت کا جنون سر چڑھ کر بولنے لگا اس کے حوالے سے تنقید بھی تیز تر ہونے لگی انسانوں کے زخمی یا مرنے کے ساتھ ایک اور مسئلہ بھی سامنے آیا جب کٹی دھاتی ڈور بجلی کے تاروں کو چھوتی تو ٹرانسفارمر ٹریپ ہونے لگے جس سے الیکٹرانک اشیاءبھی جلنے لگیں اور بجلی کی آنکھ مچولی بھی شروع ہو گئی آخرکار شدید عوامی ردعمل پر اس خونی کھیل کو بند کر دیا گیا گاہے بگاہے جب موسم سرما رخصت ہونے لگتا تو بسنت کے حوالے سے بھی باتیں ہونے لگیں امسال بھی پابندی کے باوجود پتنگوں اور ڈور کی تیاریاں ہونے لگیں جس پر انتظامیہ کے ساتھ پولیس بھی ”ایکشن“ میں آئی اور ان کو تیار کرنے والوں کے خلاف کریک ڈا¶ن کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا اسی تناظر میں گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا واضح پیغام بھی سامنے آیا جس میں انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ بسنت پر مکمل پابندی ہے اور خلاف ورزی پر ڈسٹرکٹ پولیس افسر ذمہ دار ہوں گے کسی کو انسانی جانوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ دیکھا جائے تو چند برسوں کے دوران ملک میں جس طرح مغربی تہواروں کو متعارف کرایا جانے کا آغاز ہوا ہے اس نے وطن عزیز کے محب وطنوں کو کرب میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ ایسے تمام تہوار وہ بسنت کا ہو یا ویلنٹائن ڈے کا اسے اسلام اجازت دیتا ہے نہ ہی ہمارے معاشرے میں اسکی کوئی گنجائش ہے۔ کیونکہ اسلام ہمیں حدود و قیود کا پابند بناتا ہے اور جائز تفریح اور قومی تہواروں سے کسی کو انکار نہیں آج وطن عزیز میں ثقافتی میلوں کا بھی اہتمام ہوتا ہے جس میں سب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں دراصل تہوار ہی قوم کی ثقافت کے ترجمان ہوتے ہیں۔

مزیدخبریں