مقبوضہ کشمیر میں ہندو پنڈتوں کیلئے بستیاں

Feb 10, 2018

گزشتہ سال ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو سیاسی ناکامی کے بعد مودی اب نئے پلان پرعملدرآمد چاہتا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ فلسطین میں اسرائیلی بستیوں کی طرح یہاں مقبوضہ کشمیر میں بھی ہندوپنڈتوں کیلئے الگ بستیاں بنائی جائیں تاکہ اس کے مقبوضہ کشمیر کیلئے مذموم ایجنڈے کی تکمیل ہوسکے۔اس سے قبل نریندرامودی مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دلانے والے آرٹیکل 370 کو بھی ختم کرنے کی کوششیں کرچکا ہے۔ بھارتی اورریاستی عدالتیں بی جے پی کو دوٹوک کہہ چکی ہیں کہ وہ اس حرکت سے دوررہے ۔عدالتوں نے 370کے خلاف دائر درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کو عدالت تو کیا حکومت بھی نہیںتبدیل کرسکتی۔

بھارت مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اکثریتی علاقوں میں ہندو پنڈتوں کی اسرائیلی طرز پر آبادکاری کرنا چاہتا ہے۔ حریت رہنمائوں کے مطابق 2 سے تین لاکھ ہندو پنڈتوں کی آبادکاری سے کشمیرکی علیحدہ ریاست کی حیثیت ختم ہوجائے گی۔
دو تین عشرے قبل90ء کی دہائی میں پرتشدد صورتحال کے باعث تقریباً دو اڑھائی لاکھ سے زائد ہندو مقبوضہ کشمیر چھوڑ کر بھارت منتقل ہوگئے تھے اس عرصہ میں تمام ہندوخاندان بھارت میں رچ بس چکے ہیں لیکن نریندر مودی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مقبوضہ کشمیر پربھارتی قبضے کی جڑیں مزید گہری اورمضبوط بنانے کی ٹھانی تو انہیں نے دیگر کئی سیاسی کوششوں کے علاوہ ان ہندو پنڈتوں کو واپس مقبوضہ کشمیر میں آباد کرنے کااعلان کیا کہ ان ہندو پنڈتوں کو الگ بستیوں میں آباد کیاجائیگا۔
اس مقصد کیلئے گزشتہ سال ریاستی بجٹ میں تقریباً پانچ سو کروڑ روپے کاخصوصی بجٹ بھی مختص کروا دیا گیا۔ مودی کے اس اعلان کے بعد کشمیری سراپااحتجاج ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حریت پسند کشمیری کیوں احتجاج کررہے ہیں جب یہ ہندو حالات کی خرابی کے باعث کشمیر چھوڑ گئے تو کیا ان کو حق حاصل نہیں کہ وہ واپس اپنے وطن لوٹ جائیں۔اس سوال کا جواب حریت رہنما سید علی گیلانی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ہندو خاندانوں کی واپسی کیخلاف نہیںبلکہ ان کیلئے الگ بستیوں کے قیام کیخلاف ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریاست کی ڈیمو گرافی کو بدلنے کی مودی سازش کو ہم کامیاب نہیں ہونے دینگے۔
ہندو پنڈتوں کی الگ آباد کاری سے جہاں وادی کی آبادی پرمنفی اثرات مرتب ہونگے وہاں استصواب رائے بھی متاثر ہوگی۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوںکواپنے مستقبل کافیصلہ کرنے کے لئے استصواب رائے کاوعدہ کررکھا ہے جو اسے آج نہیں توکل بحرحال انہیں دینا ہے، مگرگزشتہ 69 سال سے وہ اس وعدے سے بھاگ رہا ہے۔ایسے حربے اب تک تو اس کے کام نہیں آرہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ہندو پنڈتوں کی آباد کاری میں کہاں تک کامیاب ہوتا ہے۔
مودی پلان کے مطابق بھارت بھر سے 60 سے62 ہزارہندو خاندانوں کو وادی میں لا کر بسایا جائیگا۔پہلے مرحلے میں10 ہزار ہندوخاندانوں کو چار مختلف ٹاؤنز میں2500 خاندان فی ٹاؤن آباد کرنے کاعندیہ بنایا گیا ہے۔ اس مقصد کیلئے سری نگر اور اننت ناگ میں الگ بستیاں(ٹاؤن)بنانے کیلئے ریاستی حکومت پرجگہ کے حصول کیلئے دباؤ ڈالا جارہاہے۔
پنڈت بحالی پروگرام کے تحت ہرخاندان کی مالی مدد بھی کی جائے گی۔ وہ خاندان جن کے مکانات مکمل یا جزوی تباہ ہوئے انہیں7.5 لاکھ روپے فی خاندان، مکان کی مرمت کیلئے دولاکھ جبکہ نئے گھر کی خریداری کیلئے بھی ساڑھے سات لاکھ روپے فی خاندان کی خطیررقم کی فراہمی بھی بحالی پلان کاحصہ ہے۔ ایک طرف بی جے پی حکومت کی یہ منصوبہ سازیاں ہیں تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ اورنیشنل کانفرنس کے سربراہ فاروق عبداللہ نے اپنے ایک تازہ بیان میںکہا ہے کہ بھارت کی تمام فوج بھی کشمیر آجائے تو وہ مجاہدین کامقابلہ نہیںکرسکتی،مسئلے کاواحد حل صرف مذاکرات ہیں۔
فاروق عبداللہ کا بیان کیا آنا تھا کہ بی جے پی اس پرٹوٹ پڑی ہے۔بی جے پی کے لیڈر اورریاستی نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ نے بیان مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 1994ء کی پارلیمانی قرارداد میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ آزاد کشمیر بھارت کاحصہ ہے ،پاکستان نے اس پر جبری قبضہ کررکھا ہے۔ ایک کانگریسی لیڈر وجے سنگھ نے کہا کہ اس حوالے سے پہلے ہی پارلیمنٹ میں ایک قرارداد منظورکی گئی ہے۔ فاروق عبداللہ نے ان دونوں رہنماؤں کے اعتراض کے جواب میںکہا کہ کیا بھارت یہی چاہتا ہے کہ مظلوم کو مارا جائے، آخرکتنی فوج ہماری حفاظت کرسکتی ہے۔یہ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں قرارداد ہے تو اس پر پارلیمنٹ نے اب تک کیاکیا ہے۔ قراردادیںتو اقوام متحدہ میں بھی پاس کی گئی ہیں،ان پرکتنا عمل ہوا۔
مقبوضہ کشمیر کی اکثریتی آبادی بھارت کی بجائے پاکستان سے الحاق چاہتی ہے۔یہ وہ حقائق ہیں جو بھارت کو آئینہ دکھا رہے ہیں۔بھارت کو نوشتہ دیوار پڑ ھ لینا چاہیے۔
فاروق عبداللہ یہ کہنے پرکیوں مجبور ہوئے ہیں۔ کیاوہ پاکستان کے ساتھ آملنے کی طرف راغب ہورہے ہیں یا پھر وہ جذبات میں یہ سب کچھ کہہ گئے ہیںتو یہ بات سب پرعیاں ہے کہ یہ دونوں باتیں نہیں ہیں۔ دراصل کشمیریوں کی واضح اکثریت بھارت سے جان چھڑانا چاہتی ہے اسکے باوجود کہ بھارتی فورسز ہر روزقیامت ڈھا رہی ہیں۔ لوگ گھروں میں عملاً محصورہیں۔ حریت پسندسیاسی قیادت گھروں میں نظر بند ہے۔نوجوان سینہ سپر ہوکر بھارتی افواج کامقابلہ کررہے ہیں۔نوجوانوں میں بھارتی قبضے کیخلاف مسلح جدوجہد میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔

مزیدخبریں