بسنت کی اجازت اورنظریاتی لیڈر

سُنا ہے حکومت پنجاب نے بسنت منانے کی اجازت دے دی ہے اور لاہوریوں نے آئندہ ہفتے دھوم دھام سے بسنت منانے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ یہ درست ہے کہ بسنت کا تہوارہمارے خطے کے کلچرکا حصہ ہے اوررسوم و رواج کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسی طرح لباس اور رہن سہن کے طور طریقے بھی خطے کے فطری حسن کانمونہ ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت نے بسنت منانے کی اجازت اس لئے دی ہے کہ آئندہ الیکشن میں لوگوں کی حمایت اور ووٹ حاصل کرسکے۔ لیکن میرا خیال نہیں کہ ایسا ہے۔ یوں تو گذشتہ کئی برسوں سے پنجاب حکومت نے بسنت منانے پرسخت پابندی لگا رکھی تھی۔ کیونکہ یہ بات وزیرِ اعلیٰ پنجاب بھی جانتے ہیں کہ اب بسنت کے نام پر خونی کھیل کھیلا جاتا ہے۔ عام ڈورکے علاوہ دھاتی ڈور بھی استعمال ہوتی ہے جو معصوم شہریوں کی ہلاکت کا باعث بنتی ہے۔ اگر حکومت نے ووٹ حاصل کرنے کے لئے یہ اجازت دی ہے تو میں سمجھتا ہوں یہ اس کی بہت بڑی غلطی بلکہ گناہ ہو گا کیونکہ دھاتی ڈور سے جتنے لوگ بھی زخمی یا ہلاک ہوں گے اُس کی ذمہ داری حکومت پرہی ہو گی۔ لہٰذا حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لیتے ہوئے گذشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی بسنت پرمکمل پابندی قائم رکھنا چاہئے چاہے اس سے اُس کی ساکھ خراب ہو یا لوگ اُس کی مخالفت کریں۔ کیونکہ لوگوں کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے…اگر لوگوں کی حمایت حاصل کرنا ہی ہے تو لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں موسمِ بہارکے میلے لگائے جائیں۔ کرکٹ اور ہاکی میچ کروائے جائیں۔اصل چیز تو تفریح ہے اور تفریح میں کسی کی جان کو خطرے میں ڈالنا سراسر ظلم ہے۔ اگر ووٹ حاصل کرنا ہیں تو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کئے جائیں۔ مہنگائی کوکم کرنے کی تدبیر کی جائے۔ بے گھر لوگوں کو چھت مہیا کی جائے وغیرھم…کچھ افواہیں ا س نوعیت کی بھی گردش کر رہی ہیں کہ حکومتِ پاکستان سرکاری ملازمین کی پنشن ختم کر رہی ہے۔ اگر اس افواہ میں کوئی سچائی ہے تو کیا حکومت کے اس اقدام سے لوگ اُس کی جے جے کار کریں گے؟ یا بددعائیں دیں گے؟ بہت سے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے گھر کا چولہا ہی اُن کی مٹھی بھر پنشن سے چلتا ہے۔ اگر یہ اسرا بھی اُن سے چھین لیا جائے تو کیا بیروزگاری میں اضافہ نہیں ہو جائے گا؟ لوگ بھوکوں نہیں مرنے لگیں گے؟ حکومت کو اس قسم کی بات کا تصور تک نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ جو لاکھوں نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں تھامے نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں اُن کے لئے باعزت روزگار کا بندوبست کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ غریبوں کے بچوں کو مفت علاج، مفت تعلیم اور مفت گھر دینا بھی حکومت پر واجب ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) آئندہ الیکشن میں بھرپورکامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے تو یہ سارے کام اُسے کرنے چاہئیں۔ میاں نواز شریف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے ساری سیاسی جماعتوں اور حریف سیاست دانوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ اب نواز شریف ایک نظریاتی اور عظیم لیڈر کے طور پراُبھر رہے ہیں۔ انہوں نے لوگوں کو یہ شعور دیا ہے کہ تمہارے ووٹ کو آج تک کس کس طرح پامال کیا جاتا رہا ہے۔ اپنے ووٹ کی عزت کروانے کے لئے میدان میں آنا اب عوام کا فرض ہے۔ کبھی آمریت کے نام پر، کبھی نااہلی کے نام پر عوام کے مینڈیٹ پر شب خون مارا جاتا رہا ہے۔ اب عوام کو بیدار ہو جانا چاہئے اور تمام آمروں اور غیر جمہوری قوتوں کے سامنے ڈٹ جانا چاہئے کہ ہم اپنے ووٹ کی توہین نہیں ہونے دیں گے۔ یہ ملک ووٹ کی قوت سے وجود میں آیا اور ووٹ کی قوت ہی سے قائم رہے گا۔ مریم نواز بھی نوجوان قیادت کی نمائندہ بن کر اُبھر رہی ہیں اور اب آہستہ آہستہ اُن کے لہجے میں خود اعتمادی بڑھ رہی ہے۔ وہ میاں نواز شریف کے ہمراہ ہر جلسے میں شامل بھی ہوتی ہیں اور خطاب بھی کرتی ہیں۔ جسے لوگ اب سنجیدگی سے سُن رہے ہیں۔ اُمید ہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں بھی حصہ لیں گی اور بطور ایم این اے قومی اسمبلی میں پہنچ جائیں گی۔ 

مسلم لیگ (ن) نے ایک اور بہت اچھا فیصلہ ہے کہ آئندہ وزیر اعظم کے لئے میاں شہباز شریف کو منتخب کر لیا گیا ہے۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے۔ کیونکہ شہباز شریف نے بطور وزیرِ اعلیٰ پنجاب ایسی تاریخی خدمات اور اقدامات سرانجام دئیے ہیں جن کے لئے منہ سے کہنے کی ضرورت نہیں۔ یعنی ’’ہاتھ کنگن کو آر سی کیا؟‘‘ والی بات ہے۔ شہباز شریف کے کئے ہوئے کام اپنے منہ سے اپنی گواہی دے رہے ہیں۔ اُمید ہے کہ شہباز شریف بطور وزیرِاعظم بھی پورے پاکستان کا نقشہ بدل کر رکھ دیں گے اور پاکستان کو ترقیاتی طور پر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کریں گے۔ آخر میں ویلنٹائن ڈے سے متعلق بھی ایک بات عرض کرتا چلوں کہ ویلنٹائن ڈے ویسے تو یورپ کے کلچر کا حصہ ہے جہاں شرم و حیا نام کی کوئی چیزنہیں۔ اور نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے آپسی رشتے بغیر کسی شادی وغیرہ کے معیوب نہیں سمجھے جاتے۔لیکن یہ ہمارا کلچر، ہماری تہذیب نہیں۔ ہمارے ہاں تو شرم و حیا لڑکی کا زیور اور لڑکے کا کردار ہے۔ جسے کسی صورت بھی ختم نہیں ہونا چاہئے۔ ویلنٹائن ڈے پرکوئی بھی لڑکا کسی بھی لڑکی کو پھول پیش کر کے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے۔ اب یہ دن ہمارے ہاں بھی رواج پاتا جا رہا ہے۔ لیکن ہماری نوجوان نسل کو خود ہی چاہئے کہ وہ اپنی تہذیب اور اسلامی شعائر کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس بے حیائی سے گریز کریں۔ کسی کو پھول پیش کرنا بری بات نہیں مگر اس میں مغربی کلچر کی جھلک نظر نہیں آنا چاہئے!

ای پیپر دی نیشن