وادیٔ کشمیر سرزمین کوہسار و آبشار ہے۔گل ولالہ و سرووسمن کی زمین،حسینوں میں حسین جنت نظیر میرا کشمیر زین العابدین بڈ شاہ جیسے عادل حکمران یہاں جلوہ پذیر۔للہ دو، حبہ خاتون نور الدین رشی آزاد،مہجور،محمود گامی اور تحسین تجفری ادبیات کشمیری زبان کے شاعر اور مشاہیر۔غنی کاشمیری، داراب جویا اور شایق نے فارسی ادبیات کو چار چاند لگادیئے۔شایق کا شعر سینے اور سر دھنیے …؎
میان اہل دنیا مرد مفلس خوار میگردد
الف چون درمیان زردرآید زار میگر دد
اہل دنیا کے درمیان مرد مفلس ایسے ذلیل و خوار ہوجاتا ہے جیسے کہ ’’ٓالف‘‘کا حرف اگر زر کے درمیان آجائے تو زر ’’زار‘‘بن جاتا ہے۔شایق کاشمیری کا یہ شعر دراصل آج کے کشمیر کی افسوسناک صورت حالات کا عکاس ہے۔جنت نظیر وادی کشمیر کو بھارتی افواج نے جہنم زار بنادیا ہے۔زور و زر کی تباہ کاریوں کی داستان دلخراش قسمت کشمیر تو تھی ہی مگر اسے زارو نزار بھی بنادیا گیا ہے۔ہندوستان کے آخری برطانوی وائسرائے لارڈ مومنٹ بیٹن کی زیر صدارت بھارتی ریاست ہائے شہزاد گان کا اجلاس ہوا۔یہ اصول طے پایا کہ جن ریاستوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ پاکستان میں شامل ہوں گی اور جن ریاستوں میں ہندوؤں کی اکثریت ہے وہ بھارت میں شمولیت اختیار کریں گی۔علاوہ ازیں جن ریاستوں کے حکمران ہندو ہیں اور عوام کی اکثریت مسلمان ہے یا جن ریاستوں کے حکمران مسلمان ہیں اور عوام اکثریت ہندو ہے وہاں کے مہاراجے عوام کی رائے کے مطابق فیصلہ الحاق کریں گے۔دریں حالات کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق قدرتی ،قانونی اور جمہوری اقدار کے عین مطابق تھا۔کشمیر کی 80 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔مہاراجہ ہری سنگھ ہندو ڈوگرہ تھا۔کشمیر ایک آزاد ریاست تھی۔اس کا آخری حکمران صبہ خاتون عظیم کشمیری شاعرہ کا خاوند یوسف شاہ چک تھا جیسے شہنشاہ ہند اکبر نے بہانے سے ہند بلایا اور نذر زندان تا دم مرگ کرکے وعدہ خلافی کی اور کشمیر پر فوج کشی کرکے کشمیر کو ہند میں شامل کر لیا۔صبہ خاتون ملکہ کشمیر تھی۔وہ خاوند کی جدائی میں دیوانہ ہوگئی۔غم واندوہ سے لبریز شاعری کی جسے ’’وداکھ‘‘یعنی نالہ ہائے دلگیر کہا جاتا ہے۔اس کا نام صبہ یعنی’’محبت‘‘تھا اور تخلص ’’رون‘‘ کرتی تھی جس کے کشمیری زبان میں معنی ’’چاند‘‘ہیں۔وہ سراپا محبت تھی اور حسن میں رشک قمر تھی۔ میری انگریزی تصنیف (TESRAMENT OF TRUTH) سے صبہ خاتون کی درد انگیز شاعرہ پر مفصل مضمون شامل ہے۔ جو دردو فراق اور اندوہ والم کے پہاڑ صبہ خاتون پر ٹوٹے وہی آج وادی کشمیر پر ٹوٹ رہے ہیں۔1947ء میں آتش چنار کتاب مصنف اور کاغذی شیر کشمیر غدار ملت شیخ محمد عبداللہ لارڈ مومنٹ بیٹن اور جواہر لعل نہرو کی ساز باز سے کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کا ڈرامہ رچایا گیا۔مہاراجہ کشمی رہر سنگھ دارالخلافہ سری نگری سے بھاگ کر جموں میں پناہ گزیں ہوا۔کشمیر کا بھارت سے عارضی الحاق کیا۔ اس الحاق کی کوئی تحریری دستاویز کہیں بھی موجود نہیں۔ انگریز محقق اور تاریخ دان الیسڑلیمپ نے لکھا ہے کہ کشمیر پر بھارتی قبضہ جعلی دستاویز کے سہارے پر کیا گیا۔کوئی دستاویز بھارتی حکومت کے ریکارڈ میں نہیں ہے۔میری ایسڑلیمپ سے 1993ء میں ملاقات ہوئی اور انہوں نے تصدیق کی کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی کوئی تحریر یا معاہ کشمیر الحاق ہند کے بابت ریکارڈ پر نہیں ہے۔آئین ہند کی شق نمبر 371 میں کشمیر ایک متنازعہ علاقہ تسلیم شدہ امر ہے کشمیر کو’’اسپیشل سٹیٹس‘‘کے طور پر قرار دیا گیا ہے۔کوئی بھارتی باسندہ کشمیر میںسکونت بطور کشمیری اختیار نہیں کرسکتا اور نہ ہی کشمیر میں جائیداد خرید سکتا ہے۔بھارتی وزیراعظم قاتل مسلمانان گجرات نے پاکستان دشمنی میں اعلان کیا تھا کہ وہ آئین ہند میں کشمیر کی ’’خصـوصی حیثیت‘‘ختم کردیں گے اور کشمیر کو بھارت میں شامل کرلیں گے۔لیکن بھارتی حکومت کشمیریوں کی تحریک آزادی کے سامنے سرنگوں ہوگئی اور بھارتی حکومت کو اس کار سیاہ کی جرأت نہ ہوئی۔علاوہ ازیں بھارتی ماہرین آئین و قانون نے بھی اس حرکت کی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے برعکس قرار دیا۔1948ء میں کشمیری مجاہدین نے جنگ آزادی کشمیر کا اعلان کردیا۔آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کو مجاہدین کشمیر سری نگر کی طرف بڑھ رہے ہیں اور کشمیر میں بھارتی اور ڈوگرہ فوج کو شکست فاش کا سامنا ہے تو بھارت نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا اور جنگ بندی کی درخواست کی۔13 اگست 1948ء کو سکیورٹی کونسل نے قرار داد منظوری کی۔جنگ بندی ہوئی اور یہ طے پایا کہ بھارت اور پاکستان پرامن طریقے سے مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی آزادانہ رائے سے حل کریں گے۔رائے شماری کرائی جائے گی۔آج سترسال بیت گئے ہیں۔بھارت اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے منحرف ہے۔5 جنوری 1949 کو اقوام متحدہ نے دوسری قرار داد منظور کی تھی۔اقوام متحدہ کے زیر نگرانی استصواب رائے کا حق تسلیم کیا گیا لیکن ’’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا‘‘والا معاملہ ہنوز درپیش ہے۔بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کیا نتہا کردی ہے۔1989 سے کشمیر میں ’’تحریک انتفادہ ‘‘جاری ہے۔ایک لاکھ کے قریب کشمیریوں کو شہید کردیا گیا ہے۔عورتوں کی عصمت دری عام ہے۔نوجوان کو دہشت گرد قرار دے کر سرعام گولیوں سے چھلنی کیا جارہا ہے۔کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر زمین و آسمان نالہ کناں ہیں۔چھرے کی بندوقوں سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اندھا کیا جارہا ہے۔سات لاکھ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں براجمان ہے۔انسانی حقوق کی پامالی پر جمہوریت پسند اور انسانی دوست ریاستیں مہر برلب ہیں۔ممتاز قانون دان بیرسٹر افضل حسین کی انگریزی تصنیف(KASHMIR AND HUMAN RIGHTS)بھارتی استبداد کی قلعی کھول دی ہے۔میری انگریزی کتاب نیشنل بک فاونڈیشن اسلام آباد نے بعنوان(THE PLIGHT OF KASHMIR)حال ہی میں شائع کی ہے جو مسئلہ کشمیر کی تاریخ اور عالمی حیثیت پر روشنی ڈالتی ہے۔5 فروری کا دن یوم یکجہتی کشمیر کے بطور پاکستان،کشمیر اور دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔اس کا اعلان امیر جماعت اسلامی قاجی حسین احمد نے کیا تھا جسے بعدازیں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں حکومتی سطح پر منانے کا اعلان کیا گیا۔یہ دن کشمیریوں کے حق خودارادیت کا آئینہ دار ہے۔اقوام متحدہ پر لازم ہے کہ کشمیر میں رائے شماری کرائے۔جوزف کاربل کی کتاب Danger in Kashmirبھارتی فریب کاریوں کو بے نقاب کرتی ہے ۔امسال بھی 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کو بھرپور طریقے سے منایا گیا۔راقم کو نوائے وقت کے کالم نگار اور ممتاز ماہر تعلیم عطاالرحمان چودھری صاحب نے ٹیکسلا میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی دعوت دی۔ممتاز دانشور اور ادیب و افسانہ نگار مقصود راہی صاحب نے راولپنڈی آرٹس کونسل میں مسئلہ کشمیر پر خطاب کی دعوت دی۔
صدر پاکستان جناب ممنون حسین صاحب نے ایوان صدر میں یوم یکجہتی کشمیر کی تقریب SASSI UNIVERSITYکے تعاون سے منعقد کروائی۔وائس چانسلر ساسی یونیورسٹی کی دعوت پر شریک تقریب ہوا۔تقریب میں صدر پاکستان ممنون حسین، صدر آزاد کشمیر سردار مسود خان، سینٹر رحمان ملک،سینٹر شفقت محمود ،مولانا فضل الرحمان،کشمیری رہنما محمد صفی اور ڈاکٹرماریہ سلطان نے اظہار خیال کیا۔وزیردفاع خرم دستگیر نے دفاعی نقطہ نظر سے پر مغز تقریر کی۔کشمیر کے حوالہ سے یہ عرض گزار ہوں کہ میری شعری تصنیف شعلہ کشمیر1994 میں شائع ہوئی تھی ۔یہ سلسلہ اہل قلم کی وساطت سے جاری ہے۔سابق وفاقی سیکرٹری جوبعدازاں وفاقی وزیر بھی رہے اعجاز رحیم صاحب انگریزی زبان میں ممتاز شاعر اور نقاد ہیں۔انہوں نے بطور تحفہ اپنی تازہ انگریزی کتاب بزبان شعر بعنوان مرحمت فرمائی۔انگریزی زبان میں کشمیر کی ثقافت ،ادب ،تاریخ اور مسئلہ کشمیر پر یہ فکر انگیز لاجواب تخلیقی تحریر ہے۔اعجاز رحیم کشمیری ہیں اور زادہ کشمیر ہونے کا حق ادا کردیا ہے۔