دنیا کا کوئی بھی ملک یا قوم اس وقت تک مضبوط یا ترقی یافتہ نہیں ہوسکتی جب تک وہ معاشی طور پر مستحکم نہ ہو اور اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اس کی پیداواری صلاحیت کیا ہے ؟اس میں سرمایہ کاری کے کیا امکات ہیں ؟ اور اس ملک میں کیا سرمایہ کاری ہورہی ہے؟ اس تناظر میں جب ہم پاکستان کی صورتحال دیکھتے ہیں تو سوائے مایوسی اور ارباب اختیار کی بے حسی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتاکیونکہ حقیقتاً گذشتہ ستر سالوں میں نعرئوں ،وعدوں اور دعوئوں کے سواکبھی بھی معیشت کی ترقی وبہتری یا اندرونی وبیرونی سرمایہ کاری بڑھانے کی جانب سنجیدگی کے ساتھ توجہ نہیں دی گئی یہی وجہ ہے کہ گذشتہ سولہ سترہ سالوں میں صرف کچھ موبائل فونز یا چند فوڈ چینز کے علاوہ کسی حقیقی شعبہ میں کسی قسم کی سرمایہ کاری نہیں کی گئی اور المیہ یہ ہے کہ ان شعبوں میں بھی اگر کوئی بیرونی سرمایہ کاری کرتا ہے تو اگر سال میں سو ڈالرز کماتا ہے تو سال کے آخر میںوہ اپنے ملک بھیج دیتا ہے جسکی وجہ سے ہمارے ملک کو کوئی حقیقی فائدہ نہیں پہنچ پاتا ۔
اس حقیقت کا اس اعدادوشمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 2000سے 2007تک ایک بینکار وزیر خزانہ اور بعد میں وزیر اعظم بننے والے شوکت عزیز نے جس طرح جمعہ بازار کی طرح ملکی و غیر ملکی بینک قائم کرکے اس قوم کو پلاسٹک منی کے کریڈٹ کارڈ کے ذریعے اپنے وسائل سے زیادہ اخراجات کا نشہ لگایا تھا اس کو دیکھتے ہوئے میں نے 2006میں اپنے نوائے وقت کے ایک کالم میں پیشگوئی کی تھی کہ اسکے نتیجے میں 2009تک نہ ملک میں صنعتیں بچیں گی اور نہ ہی بینک اور پھر دنیا نے دیکھا کہ 2009تک تمام بیرونی بینک اپنا سرمایہ لپیٹ کر اس ملک سے چلے گئے اور کئی ملکی بینک یا تو بند ہوگئے یا ایک دوسرے میں ضم ہوگئے ۔ اسکے علاوہ باہر کی سرمایہ کاری تو کیا ملکی سرمایہ کاروں نے بھی آج تک کسی بڑے شعبے میں سرمایہ کاری نہ کی اور اس وقت صرف ہمارے ہاں اسمبل پلانٹ پر انحصار کیا جارہا ہے بلکہ جو سرمایہ کاری کی بھی گئی تھی اسکو بھی کالے دھن کی جنت یعنی جائیدادوں کی خریدوفروخت میں لگارہے ہیں جسکی وجہ سے مجموعی طور پر ملک میں پانچ ہزار سے زائد صنعتیں بند ہوکر گوداموں میں تبدیل ہوچکی ہیں اور اسی کا شاخسانہ ہے کہ گذشتہ تین سالوں میں ملکی برآمدات پانچ ارب ڈالرز کم ہوچکی ہے اور ساتھ ہی ہماری پالیسیوں کا المیہ یہ بھی ہے کہ جن شعبوں میںبیرونی سرمایہ کاری ہوئی بھی تھی وہاں بھی صرف اسمبل پلانٹ پر ہی اکتفا کی جارہا ہے حالانکہ اس وقت تھائی لینڈ، بنگلہ دیش جیسے دیگر چھوٹے ممالک بھی تمام شعبوں میں ٹیکنالوجی کے ساتھ سرمایہ کاری کرارہے ہیں جبکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے جتنے مواقع موجود ہیں وہ شائد پوری عالمی دنیا میں چند ممالک کو ہی نصیب ہونگے چونکہ پاکستان اپنے چاروں موسموں اور دریا، سمندر، بندرگاہوں، معدنی وسائل، تیل اور زیر زمین خزانوں کی بدولت سرمایہ کاری کیلئے بہترین ملک ہے لیکن ہمارے عالمی اداروں کے غلام ارباب اقتدار اپنی مصلحتوں اورمنا فقتوں کی وجہ سے اس طرف توجہ نہیں دے رہے اور صرف نعرئوں، دعوئوں اور خوبصورت الفاظوں کا استعمال کرکے اور جھوٹے اعدادوشمار کے گورکھ دھندوں میں الجھا کر ہماری سادہ لوح قوم کے مستقبل سے کھیلنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
اسی طرح موجودہ دور میں بھی ہماری وزارت خزانہ اور اقتصادی منصوبہ بندی میں بیٹھے ہوئے افراد کا عمل اورکردار پہلے سے بھی زیادہ عالمی مالیاتی اداروں کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف عمل ہے حالانکہ موجودہ حکومت کو اپنے ابتدائی دو سالوں میں تیل کی بین الاقوامی مارکیٹ میں کم ترین قیمت کا قدرت کی طرف سے تحفہ ملا تھا جسکا دنیا کے بیشتر ممالک نے فائدہ اٹھایا مگر ہمارا ملک اس سے محروم رہا اورحاصل شدہ فائدے کو پیداواری شعبے میں لگانے کے بجائے انتظامی اخراجات پورا کرنے میں لگے رہے ۔ دوسری طرف گھر کے اثاثے بیچ بیچ کر ہمارا پیٹ نہیں بھر رہا اور ہم مزید ڈھونڈ ڈھونڈ کر موجود اثاثے کوڑیوں کے مول بیچے جارہے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں موجود رہی سہی سرمایہ کاری بھی ختم ہوجائیگی کیونکہ ایشیائی ترقیاتی بینک کے اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ سالوں میں جتنے بھی اثاثے بیچے گئے ان میں سے اکثر کی حالت پہلے سے بھی زیادہ خراب ہے اور جب ملک کے اپنے سرمایہ کار اپنے ملک میں سرمایہ کاری نہیں کرینگے تو بیرون ملک سے کون آکر ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کریگا ؟
انویسٹ ایشیاء کی ایک رپورٹ کے مطابق ایشیائی ممالک میں تھائی لینڈ،ملائشیائ، بھارت ،فلپائن حتیٰ کہ کمبوڈیااورویت نام جیسے ممالک بھی سرمایہ کاری کیلئے موزوں ملک ہیں مگر پاکستان کا دور دور تک پتہ نہیں ہے جبکہ فوربز انٹرنیشنل کی ایک سروے کے مطابق کاروبار کیلئے بہترین ملک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 102واں ہے جبکہ اسی لسٹ میں پاکستان سے انتہائی چھوٹے اور ذمینی وقدرتی وسائل کے فقدان والے بہت سے ممالک پاکستان سے بہترین پوزیشن میں ہیں جیسا کہ لگژمبرگ کا نمبر 25واں، اسٹونیا کا 27واں، لتھونیا کا 30واں،قبرص کا37واں، مالٹا کا38واں،قطرکا 40واں،ماریشس کا 41واں،بھارت کا 62واں، سری لنکا کا77واں اور بوٹسوانا اور روانڈا جیسے پسماندہ ممالک کا نمبر بھی بالترتیب 76واںاور 79واں ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بین الاقوامی تجارت کرنیوالوں اور سرمایہ کاری میں دلچسپی لینے والوں کی نظر میں پاکستان کا کیا اہمیت ہے۔ حالانکہ یہ بات ہرگز نہیں کہ پاکستان سرمایہ کاری کیلئے موزوں ملک نہیں ہے کیونکہ چین اپنی اربوں کی سرمایہ کاری کررہا ہے مگر دیگر ممالک کی سرمایہ کاری میں دلچسپی بھی بہت ضروری ہے۔
اس سے پہلے ملائشیاء اور جاپان نے پاکستان میں پاکستان کیساتھ اپنے پیداواری زون میں مشترکہ سرمایہ کاری کے اصول پر کام عملی طور پر شروع کردیا تھا اور پاک جاپان اکنامک زون کیلئے کراچی کے نزدیک دھابے جی میں زمین بھی الاٹ کردی گئی تھی مگر ہمیشہ کی طرح اسکی راہ میں بھی ہمارے ارباب اختیار کی لاپرواہی اور غفلت سامنے آئی اور ہم اس جانب مزید آگے نہ جاسکے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس وقت ہمارے تمام سنجیدہ حلقوں کیلئے سب سے بڑا لمحہ فکریہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے ملک میں کس طرح سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرکے ملکی سرمایہ کاروں کو اس طرف راغب کرسکتے ہیں۔ ان تمام تلخ حقیقتوں کے باوجود ہمارے ارباب اختیار دنیا کی اٹھارویں معاشی طاقت بننے کے دعوے اور خوش فہمیوں کے سمندر میں رہنا چاہتے ہیں ۔ انکی مثال تو ایسے ہی ہے کہ روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجارہا تھا یا قوم بھوک سے بلبلا رہی تھی اور ملکہ عالیہ انہیں روٹی نہ ملنے کی شکایت پر ڈبل روٹی کھانے کا مشورہ دے رہی تھی اور شائد ہمارے معاشی افلاطون کی بے حسی اس سے بھی زیادہ ہوچکی ہے حالانکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے بے بہا ذرائع ہیں جیسا کہ ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات پر زیادہ توجہ دے کر اس میں سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے اور پلاسٹک اور کیمیکل کے شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کے بڑے وسیع مواقع موجود ہیںاگر ہم اس پر کام کریں تو یہ شعبہ جات پاکستان کی برآمدات کو بڑھانے میں اہم کردار اداکرسکتے ہیں۔
اسکے ساتھ ساتھ پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے اس لئے زرعی فارمنگ، فوڈ انڈسٹری اور خصوصاً سی فوڈ میں بھی جدید ٹیکنالوجی استعمال کرکے فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں جیسا کہ اطلاعات کیمطابق پاکستان کی سمندری حدود میں بڑی نایاب مچھلیاں نظر آرہی ہیں۔ اسکے علاوہ ہم اپنے تاریخی مقامات ، ساحلی اور پہاڑی مقامات کو ترقی دے کر سیاحت کے میدان میں بہت آگے بڑھ سکتے ہیں چونکہ اس وقت دنیا کے کئی ممالک کے مجموعی بجٹ کا بیشتر حصہ ہی سیاحت کے میدان سے حاصل ہوتا ہے تو ہم بھی سیاحت کی مد میں لاکھوں ڈالرز کماسکتے ہیں ۔حالانکہ سیاحت کے میدان میں اس وقت ماریشس ،تھائی لینڈ ، سری لنکا، ملائشیاء اور انڈونیشیاء ہم سے کہیں آگے جاچکے ہیں۔
یہ بھی ہماری معیشت کیلئے بھیانک خواب سے کم نہیں کہ ہمارے معاشی افلاطونوں کی بدولت جو ڈالر خوش قسمتی سے 94.5فی ڈالر کی سطح پر آگیا تھا آج پھر انکی حماقتوں کی وجہ سے111روپے فی ڈالر تک پہنچ گیا ہے جس کی وجہ صرف ہمارے وزارت خزانہ کے ذمہ داروں کی ملک سے بے حسی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اس لئے اب ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کی سیاست کو ختم کرکے ملک میں پہلے ملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کیلئے راغب کیا جائے اور اس وقت جو آٹو انجینئرنگ اور ٹیلی کمیونیکیشن اسمبل پلانٹ یا صرف سروسز دی جارہی ہیں ان کومجبور کیا جائے کہ وہ ٹیکنالوجی اور پیداواری صلاحیت کے ساتھ سرمایہ کاری کریں کیونکہ ہمارے ملک میں نہ افرادی قوت کی کمی ہے، نہ وسائل کی کمی ہے اس لئے ہم اپنے وسائل کو استعمال کرکے اس ملک میں ایک بڑا صنعتی اور سرمایہ کاری انقلاب لاسکتے ہیں تب ہی ہم اپنے ملک کو حقیقی معنوں میں سرمایہ کار ملک کہہ سکتے ہیں۔