سعودی عرب میں بارشیں کم… مگر بہت تیز ہوتی ہیں سردیوں کی ایسی ہی ایک شام میں زائرین خانہ کعبہ میں عبادت میں مشغول تھے۔ جب گھن گرج کے ساتھ اچانک بارش شروع ہو گئی جس پر خانہ کعبہ کے گرد بیٹھے لوگ بارش سے بچنے کے لئے خانہ کعبہ کے اطراف میں بنے برآمدوں کی طرف لپکے مگر برآمدہ میں بیٹھا ایک شخص ہجوم کے مخالف خانہ کعبہ کی طرف بھاگا اورخانہ کعبہ کے پارجے کے نیچے چھت سے گرنے والے پانی کے نیچے جا کھڑا ہوا جوں جوں اس پر خانہ کعبہ کی چھت گرنے والا پانی اس پر گرتا توں توں اس کی مستی، سرشاری اور وارفتگی میں اضافہ ہوتا گیا اسے اپنے سفری کاغذات، پاسپورٹ اور جیب میں موجود ریالوں کی پرواہ بھی نہ تھی جو شدید بارش سے گیلے ہو رہے تھے۔ خانہ کعبہ میں برستی بارش کے پانی سے اس طرح فیض یاب ہونیوالے شخص کا نام … میجر رشید وڑائچ تھا ان کی ساری زندگی خدمت خلق کے کاموں میں وقف رہی۔ محتاجوں اور مساکین کی مدد کے لئے وہ ہر وقت تیار رہتے، ہسپتالوں کے مریضوں اور ان کے تیمارداروں میں قرآن پاک اور تسبیحاں تقسیم کرنا ان کا معمول تھا مریضوں کی دلجوئی کے لئے وہ انہیں گلابوں کے تخائف بھی دیا کرتے تھے۔ کئی سال وہ رات بھر جاگ کر اڑہائی تین سو غریب لوگوں کیلئے کھانا تیار کراتے تھے اور پھر صبح سویرے اللہ اکبر کی آواز بلند ہوتے ہی نماز کی ادائیگی کے بعد نان حلوہ، چنے، انڈے اورچائے لے کر چوک چوبرجی چلے جاتے وہاں پارک اور فٹ پاتھوں پر سوئے غریب مزدوروں کو جگا کر انہیں صبح کا ناشتہ کراتے۔میجر رشید وڑائچ 73 برس قبل سرگودھا کے چک 95 جنوبی میں زمیندار گھرانہ میں پیدا ہوئے سکول اور کالج کی تعلیم سرگودھا سے ہی حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کر کے فوج میں کمیشن لیانومبر 1971ء میں وہ میجر شبیر شریف (نشان حیدر) کے ساتھ پنجاب رجمنٹ میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ میجر وحید کاکڑ (BM) بریگیڈئر میجر اور بریگیڈئر امیر حمزہ (ستارہ جرأت) بریگیڈئر کمانڈرتھے اس وقت مشرقی پاکستان میں جنگ شروع ہوچکی تھی۔ کمانڈر سے درخواست کی ’’سر میں جنگ لڑنے کیلئے فوج میں آیا تھا مجھے مشرقی پاکستان بھیجا جائے‘‘ درخواست قبول ہوئی محاذ جنگ پر روانہ ہونے سے پہلے گھر والوں سے ملنے گاؤں گئے۔ بوڑھی ماں نے کمزور ہاتھوں سے کندھا تھپتھپاتے ہوئے زور سے کہا ’’پتر تے گھوڑے میداناں وچ ای چنگے لگدے نئیں‘‘ ڈھاکہ پہنچتے ہی کمپنی کی کمانڈ مل گئی میجر سعید ٹوانہ (ستارہ جرأت) کا کہنا ہے کہ فرید پور کمار کھلی میں دشمن آ گیا تو میجر رشید وڑائچ نے سنت نبویؐ کی پیروی میں سر پر سیاہ رنگ کا عمامہ باندھا ہوا تھا نعرے لگاتے کہ دشمن گھیرے میں آ گیا ہے بچ کے جانے نہ پائے… ساتھیوں کے حوصلے بلند ہوئے دشمن پر حملہ کر کے ایک لیفٹیننٹ اور 6 سپاہیوں کو قابو کر لیا اس مرد مجاہد نے ہاری ہوئی جنگ میں اس طرح کے معرکے برپا کئے۔
سرنڈر ہوا تو دشمن نے سر جھکانے کا حکم دیا مگر چھوٹے قد کے میجر رشید وڑائچ نے حکم عدولی کی ایڑھی پر کھڑے ہو کر سر مزید اونچا کر دیا دشمن غرایا Shoot in … موت ایک سکینڈ دور تھی لیکن اعتماد کا عالم کہ دشمن کو للکار رہے تھے ’’گولی مارو… پوچھ کے مارنی ہے کیا‘‘ ساتھیوں سے کہا ’’کاش یہ دن نہ دیکھتا مسلمان ہوں خودکشی نہیں کر سکتا‘‘ سکھ میجر نے قیدی کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اوراسے واپس بھیج دیا سکھ میجرنے اپنی کمان کے ساتھیوں سے کہا ’’یہ اٹھرا قیدی ہے ساڈھی نوکری ضائع کرنے پر تلاہوا ہے۔‘‘
میجر رشید وڑائچ ڈھاکہ فال کے بعد آگرہ قلعہ میں بھارت کی قید میں تھے وہاں سے دربار فرار ہونے کی کوشش میں ڈٹ کر مار کھائی مگر جوانمردی میں رتی بھر لرزش نہ آئی فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد خلق خدا کی خدمت کیلئے زندگی وقف کر دی۔ ’’حزب اللہ‘‘ جماعت کی بنیاد رکھی جس کے وہ قائد اور خود ہی کارکن تھے ۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنی جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر اسکی آمدن یتیموں، بیواؤں اورغریبوں کے لئے وقف کر دی تھی ۔ ہمارے والد محترم چودھری کرم رسول ایک درد دل رکھنے والی مخیر شخصیت تھے انہوں نے تحریک پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کا شانہ بشانہ جدوجہد کی۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں ’’نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن‘‘ نے انہیں بعدازمرگ ’’نظریہ پاکستان گولڈ میڈل‘‘ کے اعزاز دیئے۔ میجر رشید وڑائچ وفات سے چند روز قبل اپنی والدہ کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے قبرستان گئے تو گورکن مٹی میں بہت لت پت ایک نئی قبر کھود رہا تھا۔ اسے قریب بھلایا گلے سے لگایا اور کہا یار کسی اچھی جگہ میرے لئے بھی قبر کی جگہ رکھ لو ماں کے قدموں میں بہتر رہے گی گورکن نے انہیں دراز عمر کی دعا دی اور وہ مسکراتے ہوئے قبرستان سے واپس چلے آئے ان کی دلی تمنا تھی کہ وہ آقائے دو جہاں حضرت محمدﷺ جتنی عمر پائیں اللہ تعالیٰ نے انکی یہ خواہش پوری کر دی اور 63 برس کی عمر میں دس سال قبل اس دنیا سے رخصت ہو کر اللہ کے مہمان جا بنے۔