نند کشور وکرم نے متنوع ادبی سرمایہ فراہم کیا‘ سحر انصاری

کراچی (سٹی ڈیسک) نند کشور وکرم نے متنوع ادبی سرمایہ ہمارے اردو ادب کو دیا ہے‘ علی عباس حسینی پر ان کی مرتب کردہ کلیات یقینا بے حد اہم ہے ان کا بے حد وقیع رسالہ ’’عالمی اردو ادب‘‘ برسوں سے پابندی سے شائع ہوتا ہے ان خیالات کا اظہار انجمن ترقیِ اردو پاکستان کے زیرِ اہتمام بھارت سے آئے ’’عالمی اردو ادب‘‘ دہلی کے مدیر اور معروف افسانہ نگار نند کشور وکرم سے ملاقات اور علی عباس حسینی کی کہانیوں پر گفتگو کے موقع پر پروفیسر سحر انصاری نے اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہاکہ علی عباس حسینی نے کمال کے افسانے لکھے اور پاکستان میں ’’افکار‘‘ رسالے میں بھی شائع ہوتے رہے۔ ان کی بے شمار کتابیں مختلف موضوعات پر شائع ہوئیں۔ ’’اردو شاعری کا دفاع‘‘ ان کی اہم کتاب ہے جسے انجمن ترقی اردو پاکستان نے شائع کیا۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے اپنے استقبالی کلمات ادا کرتے ہوئے علی عباس حسینی کی کلیات کی ترتیب اور انجمن آمد پر شکریہ ادا کیا اور علی عباس حسینی کے چند اہم افسانوں کے اقتباسات بھی پڑھ کر سنائے۔ انہوں نے کہاکہ نند کشور وکرم کی عمر نوے (۹۰) برس ہے انہوں نے پوری عمر اردو زبان و ادب کی خدمت میں بسر کی اور اس کا عملی ثبوت ’’عالمی اردو ادب‘‘ ہے۔ آج غیرمعمولی دن ہے اور انجمن کی تاریخ کا باب سنہرا ہوگیا ہے۔ صاحبِ اعزاز نند کشور وکرم نے اپنے خطبے میں کہاکہ کراچی میرے خوابوں کا شہر ہے اور آرزو تھی کہ زندگی میں کراچی جانا ہو۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ’’اردو باغ‘‘ انجمن ترقیِ اردو پاکستان میں دعوت دی اور میں یہاں آیا۔ میں ان کا ممنون ہوں۔ انہوں نے علی عباس حسینی کے کام ان کی کتابیں افسانے‘ ناول‘ تنقید و تحقیق اور ڈرامے کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہاکہ علی عباس حسینی فکشن نگاری میں بہت آگے بڑھ گئے تھے اور آخر دم تک اردو کی خدمت میں ڈٹے رہے۔ افسانہ نگاری میں دیہی زندگی کی حقیقی منظرنگاری اور قدرتی مناظر پیش کرنے میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔ باشعور دانشور تھے اور فرقہ واریت سے سخت نفرت کرتے تھے۔ انہوں نے افسانے میں جدید تکنیک سے کام لیا۔ وہ ایک حقیقت پسند افسانہ نگار اور سیکولر مزاج آدمی تھے۔ تقریب کے دوسرے حصے میں ڈاکٹر آصف فرخی نے نند کشور وکرم سے علی عباس حسینی کی افسانہ نگاری‘ ان کے کام اور اردو شاعری پر ان سے مختلف سوالات کئے۔ نند کشور وکرم نے بڑی تفصیل سے ان کے جوابات دیئے۔ اس کے بعد تقریب کے مہمانِ خاص ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے اپنے خطاب میں نند کشور وکرم کی انجمن آمد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ آج خوشی ہے کہ ان کی وجہ سے علی عباس حسینی کو یاد کرلیا۔ وہ مقبول افسانہ نگار تھے جن کے افسانوں کا انتظار کیا جاتا تھا۔ نند کشور نے پہلا پرچہ ارتقا شائع کیا اور اس کے بعد ’’عالمی اردو ادب‘‘ 62 برس سے تنِ تنہا شائع کر رہے ہیں جس طرح کام کرتے ہیں‘ یہ انہی کی روشنیٔ طبع ہے کہ صرف ایک آدمی ایک اکیڈمی پر بھاری ہے۔ انہوں نے کبھی کسی سے نہیں لکھوایا۔ سچ اور فضیلت کی تلاش میں ایسا آدمی ہمیں کہاں ملتا ہے۔ ایس ایم معین قریشی نے اپنے مخصوص انداز میں کہاکہ اردو اور ہندی زبان دو سگی بہنیں ہیں‘ اردو کی تزئین اور ترقی میں ہندو اہلِ قلم کا بڑا کردار ہے۔ ہم نے ان کو اختلاف کا ذریعہ بنالیا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ ہندوستان میں لوگ اردو زبان و ادب کے بڑے کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ محمود شام نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہر مذہب کو زبان کی ضرورت ہوتی ہے لیکن زبان کو مذہب کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے نند کشور وکرم سے دہلی میں اپنی ملاقات کا احوال بیان کیا۔ انہوں نے کہاکہ اردو سے لازوال محبتوں کا اظہار اور عقیدت بھارت میں ملتی ہے۔ محمود شام نے نند کشور کی کتابوں اور رسالوں کے بارے میں بھی تفصیل سے بتایا۔

ای پیپر دی نیشن