مسئلہ ایک،وزیر دو!!!!!!!

Feb 10, 2020

محمد اکرم چوہدری

ہم ٹی وی دیکھ رہے ہیں۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کا بیان چل رہا ہے کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے اب اس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مہنگائی کی کمر توڑی جائے اور مصنوعی مہنگائی کے ذمے داروں کو کڑی سزا دی جائے گی۔ اب کام کرنے کا وقت ہے اور وزیراعظم بڑے فیصلے کرنے جا رہے ہیں۔
اب ایک اور وزیر کا بیان آپکی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر کہتے ہیں کہ چیزوں کی قیمتیں بڑھنا انتظامی ناکامی نہیں بلکہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی نہ ہو تو انتظامی ناکامی ہوگی۔سبزیوں کی قیمتوں میں مزید کمی آئے گی، ہمیں مہنگائی کا احساس ہے مگر اس کی وجہ سے گھبراہٹ نہیں ہے۔
اسد عمر اس سے پہلے بھی مہنگائی کے حوالے سے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ انہیں اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں ملسل اضافے پر تشویش بھی ہے۔ آج بھی انہوں نے کہا ہے مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے اور اس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف حماد اظہر فرماتے ہیں کہ ماضی میں بھی چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
اب اس سوچ پر کیا کہا جائے جب وفاقی کابینہ کے دو اہم وزراء انتہائی اہم مسئلے پر دو مختلف رائے رکھتے ہیں۔ اسد عمر اعتراف کرتے ہیں کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے اور اس پر کام کرنے کا وقت ہے۔ جبکہ حماد اظہر بڑھتی ہوئی قیمتوں کا دفاع کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اب ان دونوں میں سے کس کی بات کو درست تسلیم کیا جائے۔ یا تو اسد عمر غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں یا پھر حماد اظہر عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ وزراء کے اس قسم کی بیان بازی سے یقیناً حالات خراب ہوئے ہیں۔ جب وزراء کو اصل مسائل کا علم ہی نہ ہو اور ایک اہم وزیر بڑھتی ہوئی قیمتوں کا دفاع کرتے ہوئے اسے درست ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب ووٹرز، سپورٹرز اور تمام وہ جنہوں نے حکومت کا ساتھ دیا ہے یا وہ جو تبدیلی کے خواہشمند تھے یہ سوچ اور بیانات پڑھ کر انہیں بھی دکھ ہو رہا ہو گا کہ حکومت کے وزراء کیا کر رہے ہیں۔ ایک ایسا مسئلہ جس پر حکومت گھبرائی ہوئی ہے اور ہر دوسرا وزیر مہنگائی پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہے حماد اظہر کہتے ہیں کہ مہنگائی کا احساس ہے لیکن کوئی گھبراہٹ نہیں ہے۔ یہ الفاظ تو متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ یہ الفاظ تو مہنگائی سے متاثرہ افراد کا مذاق بنانے کے لیے کافی ہیں۔ یہ الفاظ تو ان پاکستانیوں کے لیے سبق ہے جنہوں نے تبدیلی کو ووٹ دیا تھا۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں گندم باہر سے منگوانا پڑی، آٹے کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے، ٹماٹر بھی قوت خرید سے باہر نکل گیا ہے، ادویات مہنگی ہوتی جا رہی ہے لیکن حماد اظہر کو گھبراہٹ نہیں ہے۔ وہ درست کہتے ہیں کہ گھبراہٹ نہیں ہے کیونکہ انکا کچن مہنگائی کی وجہ سے متاثر نہیں ہوا، نہ انہیں خدانخواستہ بچوں کی فیسوں کی ادائیگی کا مسئلہ ہوا۔ نہ انکا کوئی کام مہنگائی کی حالیہ لہر کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔ اس لیے مہنگائی کی وجہ سے انکا متاثر نہ ہونا معمول کی بات ہے۔ وفاقی وزیر فرماتے ہیں کہ ایک یا دو شخص کا نام نہیں، گندم، چینی، ٹیکسٹائل اور دیگر شعبوں میں مافیا موجود ہیں۔شرح سود، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کا حکومتی فیصلہ بھی درست ہے، مسلم لیگ (ن) نے شرح سود، بجلی اور گیس کی قیمتیں کم رکھ کر ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔ بجلی گیس مہنگی ہو گی تو اس کا اثر کھانے پینے کی چیزوں پر پڑے گا۔ وزیر موصوف لگتا ہے بغیر تیاری کے بول رہے ہیں۔ انہیں اندازہ نہیں ہے کہ کسی ایک شعبے کا تعلق کسی دوسرے سے ہے بجلی، گیس مہنگی کر دی جائے اور حکومت یہ سمجھے کہ اس سے عام آدمی کی زندگی کو فرق نہیں پڑے گا وہ متاثر نہیں ہو گا تو بھول ہے۔ ملک چیخ رہا ہے تنخواہ دار طبقہ پس رہا ہے۔ کم آمدنی والوں کے لیے زندگی مشکل تر ہو تی چلی جا رہی ہے اور حماد اظہر کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی گھبراہٹ نہیں ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے سے تو نیندیں اڑ جانی چاہئیں، ہنگامی حالت نافذ کر دینی چاہیے، ہیلپ لائن کا اعلان ہونا چاہیے تاکہ جس کو جہاں جگہ مسئلہ ہو حکومت اس کی دہلیز پر اسے حل کرے۔ بدقسمتی ہے کہ حکومت کے وزراء کے ایسے غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے عوام پر اضافی بوجھ پڑا ہے۔ حکومت کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ ہر وقت مافیا مافیا کی گردان کرتی رہے بلکہ اسکا کام اس مافیا کو ختم کرنا اور نشان عبرت بنانا ہے تاکہ کسی کو عام آدمی کے جذبات کے ساتھ کھیلنے کا موقع نہ مل سکے۔
دوسری طرف اسد عمر ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اب کام کرنے کا وقت ہے۔ ویسے حکومت اس مسئلے پر سنجیدگی سے کام کرے تو مسائل حل ہو سکتے ہیں لیکن اس کے لیے سب کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا۔ اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ وزراء کو بیان بازی سے آگے سوچنا ہو گا۔ بہتر یہی ہے کہ پہلے مسئلہ سمجھیں پھر اس پر خیالات کا اظہار کریں۔ ایک ہی مسئلے پر ان دو اہم وزراء کی مختلف سوچ بھی مسائل کا باعث ہے۔ ایک ہی مسئلے پر دو وزراء کے مختلف بیانات سے عوامی سطح پر ابہام پیدا ہوتا ہے۔ مافیاز کے خلاف کارروائی کرنے لیے دل بڑا کریں اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے عملی اقدامات کریں۔

مزیدخبریں