تاج برطانیہ کا سورج جب ڈھلوان کی جانب محو سفر ہوا تو اس نے اپنی نو آبادیات پر اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کیلئے انہیں آزاد اور خود مختار کرنے کا ڈھونگ رچایا ۔ ایک خاص منصوبے کے تحت برطانیہ ان ممالک کو اپنی مصنوعات کی منڈیا ں بنا کر زیر تسلط رکھنا چاہتا تھا لہذا مشرقی وسطیٰ کے آزاد کردہ مسلم ممالک کے درمیان اسرائیل بنانا اور برصغیر میں پارٹیشن پلان کے برعکس مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل ریاست (کشمیر ) کو بھارت کے قبضے میں چھوڑ کر دونوں خطوں کے لئے مستقل ناسور بنا دیا گیا ۔ حضرت قائداعظم نے پہلے ہی کشمیر کی جغرافیائی حیثیت پہنچاتے ہوئے اسے پاکستان کی شہ رگ کہا ۔کشمیر کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ حضرت قائداعظم نے تقسیم ہند کے دوران ہندو کی کشمیر پر نظر بد کو بھانپ کر اپنے کمانڈر چیف کو کشمیر کی جانب پیش قدمی کا حکم فرمایا ۔جنرل گریسی انگریز ہونے کے باعث اس فتنے میں شامل تھا لہذا بانی پاکستان کی حکم عدولی کی گئی ۔ پاکستان سے مجاہدین کشمیر میں داخل ہوئے اور موجودہ آزاد کشمیر کو بھارتی قبضے سے چھڑا لیا جس کے جواب میں پنڈت جواہر لعل نہرو نے اقوام متحدہ سے کشمیر میں استصواب رائے کا وعدہ کرتے ہوئے مداخلت کی اپیل کی ۔سلامتی کونسل میں اس کے متعلق قرار دادیں منظور ہو چکی ہیں ۔
بھارت نے 1950ء میں پانی کا تنازعہ کھڑا کرکے ورلڈ بینک کے ذریعے دریائوں کی تقسیم کا منصوبہ پیش کیا جسے مسلم لیگی حکومت نے متعدد بار مستر د کر دیا مگر پاکستان پر نوکر شاہی کے قبضے کے بعد سندھ طاس واٹر ایکاڈ کی صورت میں تین دریا بھارت کو دے دیے گئے جو کہ کشمیر سے پاکستان کی طرف بہتے تھے ۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کی وجہ کشمیر ہی نظر آتا ہے۔بعدازاں مشرقی پاکستان میں پھیلائی نفرت اور مکتی باہنی کا کردار بھی کسی سے مخفی نہیں 1975ء میں اندرا گاندھی نے آئین میں تبدیلی لاتے ہوئے کشمیر کو بھارت کی باقاعدہ ریاست کا درجہ دے دیا ۔ اس کی شق 370کے مطابق کسی غیر کشمیری کو ریاست کی شہریت مل سکتی ہے نہ وہاں پر جائیداد خرید ی جا سکتی ہے ۔ بھارت کی موجودہ انتہا پسند قیادت تمام ملکی اور بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اور لاکھوں حریت پسند شہید وں کو فراموش کرکے صرف طاقت کے بل بوتے پر انہیں ہمیشہ کے لئے غلام بنانے کے ارادے کا اظہار کر رہے ہیں ۔ عرصہ دراز سے کشمیر بھارت کی ایک فوجی چھائونی کی شکل اختیار کئے ہوئے ہے مگر 5اگست 2019مودی کی واردات کے بعد شہریت ترمیمی ایکٹ اور نیشنل رجسٹریشن کے بل پارلیمنٹ میں منظور کروا کر بھارت کو ہندو ریاست بنانے کا اعلان کیا جس کے نتیجے میں بھارت کے ہر گوشہ ہر کونہ میں بغاوت کی لہر دکھائی دیتی ہے ۔بھارتی میڈیا کے مطابق 100سے زیادہ یونیورسٹیوں کے طلبہ سراپا احتجاج ہیں ۔600ضلعوں میں سے 200 مکمل آزادی کے پرچم بلند کر رہے ہیں۔ان حالات کو معروف بھارتی مصنفہ ارونا دتی رائے نے نیویارک ٹائم میں لکھے گئے مضمون میں بھارتی بربریت کو یوں بے نقاب کیا کہ 5اگست کے آئین شکن اقدام کے بعد 5لاکھ کے قریب کشمیری بے روزگار ہوئے اور معیشت 20ارب ڈالرز خسارے میں چلی گئی ۔چھ ماہ سے زائد کرفیواور لاک ڈائون تاریخ عالم میں کہیں دیکھا نہیں گیا ۔موجودہ ناگزیر حالات میں مردقلندر جناب مجید نظامی کی شدت سے کمی محسوس ہوتی ہے ۔ انہوں نے اکثر و بیشتر ہندوئوں کی ذہنیت کے مطابق علاج تجویز کیا ۔جناب نظامی نے فرمایا ۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور کشمیر کے پہاڑوں سے آنے والے دریائوں کا پانی پاکستان کے لئے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے بغیر پاکستان ریگستان بن جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت قائداعظم نے پاک فوج کے سربراہ کو گورنر ہائوس لاہور میں حکم دیا تھا کہ مجاہدین کی مدد اور کشمیر کی آزادی کیلئے پاک فوج کو کشمیر میں داخل ہونے کا حکم دیں لیکن جنرل گریسی نے دہلی میں مقیم سپریم کمانڈر جنرل آکنلک سے اجازت لینے کا بہانہ بنا کر قائداعظم کے حکم کو ٹال دیا جس کی وجہ سے باقی مانندہ کشمیر آزاد نہ ہو سکا ۔ نظامی صاحب نے کہا کہ بھارت کشمیر کے اندر پاکستانی دریائوں پر 62ڈیم تعمیر کر رہا ہے ہمیں چاہئے کہ دو چار میزائلوں کا رخ ان ڈیموں کی طرف کرکے بھارت کو دھمکی دیں کہ لالہ جی یہ کام بند کریں ورنہ ہمارے میزائل چلیں گے اور اگر اس کے بدلے میں بھارت کے میزائل بھی چل جاتے ہیں تو ہمیں اس سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایک غیرت مند اور باعزت قوم کی حیثیت سے اس خطر ے کو مول لینا چاہیے ۔ ہم نے ہندوئوں پر ایک ہزار سال تک حکومت کی ہے اب ہم جرات ایمانی سے کام لے کر ہی ہندوئوں کو سبق سکھا سکتے ہیں ۔ اقوام متحدہ کی نگرانی میں کشمیر میں استصواب رائے کرایا جائے کہ کشمیری پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت میں ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے مکمل یقین ہے کہ کشمیری پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کیلئے ووٹ دیں گے حتٰی کہ شیخ عبداللہ کا پوتا عمر عبداللہ بھی ان کے ساتھ شامل ہوگا۔
مسئلہ کشمیر اور مجید نظامی
Feb 10, 2020