وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کا ,, مفاہمت مشورہ ،،

31سال قبل کی بات ہے جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام سے اظہار یک جہتی کے لئے یوم یک جہتی کشمیر منانے کا فیصلہ کیا جس نے پاکستان اور کشمیر کے اطراف روایت کی شکل اختیار کر لی ہے اس روز پوری پاکستانی قوم کشمیری عوام سے یک جہتی کا اظہار کرتی ہے 1989ء میں مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد شروع ہوئی۔ ’’خط حد متارکہ‘‘(سیز فائر لائن) عبور کر کے مظفر آباد پہنچنے والے مجاہدین کے پہلے قافلے کا استقبال کرنے کے لئے قاضی حسین احمد نے پروفیسر الیف الدین ترابی کی تجویز پر 5فروری1989 یوم یک جہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا قاضی حسین احمد دور اندیش لیڈر تھے انہوں نے پوری پاکستانی قوم کو کشمیریوں سے محبت کے اظہار کا راستہ دکھا دیا میاں نواز شریف نے قاضی حسین احمد کے اعلان کی حمایت کی تو پورے ملک میں غیر معمولی جوش وخروش سے یک جہتی کشمیر منایا گیا اگلے سال اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے یوم یک جہتی کشمیر کو سرکاری طور منانے کا اعلان کر دیا اب پچھلے تین عشروں سے پاکستان اور آزاد و مقبوضہ کشمیر میں یوم یک جہتی کشمیر جوش خروش سے منایا جاتا ہے عمران حکومت نے 5فروری2020ء کو سرکاری طور پر یوم یک جہتی کشمیر منایا پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے ڈی چوک میں لگائے گئے ’’ہورڈنگز اور قد آدم ‘‘ تصاویر میں کہیں بھی مجھے قاضی حسین احمد کی تصویر نظر آئی اور نہ ہی جماعت اسلامی نے کہیں قاضی حسین احمد کی تصاویر لگانے کی زحمت گوارہ کی ۔ 5اگست2019ء کو بھارتی آئین آرٹیکل 370اور 35اے کے تحت حاصل خصوصی حیثیت ختم کر کشمیریوں پر جو ظلم ڈھایا ہے اس پر پاکستان اور کشمیر کے دونوں اطراف عوام سراپااحتجاج بنے ہوئے ہیں 5اگست2019ء کے اقدام کے خلاف ابتدا میں وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کے خلاف دھواں دھار تقاریر کیں جمعہ کو ’’کشمیر ڈے‘‘ منانے کے فیصلہ پر حکمرانوں سے تسلسل سے عمل ہو سکا اور نہ ہی اپوزیشن جماعتوں نے کشمیر کو اپنا فوکس بنایا البتہ جماعت اسلامی نے کشمیر مارچ کر کے مسئلہ کشمیر کو عوام کی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کی قرار دادیں منظور کی گئیں پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے اجلاس منعقد ہوئے لیکن کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام کو بیرون ملک بھجوانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی وزیر اعظم نے کشمیر کمیٹی کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ہی نہیں دیا ۔ صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود احمدخان اور وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے اپنی بساط کے مطابق پوری دنیا میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن حکومت پاکستان نے مسئلہ کشمیر سے آگاہ کرنے کے لئے خصوصی ایلچی کی تقرری کی زحمت بھی گوارہ نہیں ۔ وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں کشمیر کی صورت حال پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنی تمام ’’ کمزوریوں ‘‘ کا ملبہ وزارت خارجہ پر ڈال دیا اورکہاکہ حکومت مسئلہ کشمیر پر بہت آگے تک جانا چاہتی تھی لیکن وزارت خارجہ نے وزیر اعظم کو ’’سپورٹ ‘‘ نہیں کیا آزاد جموں و کشمیر اور گلگت میں مسلم لیگ (ن) حکومت ہیں کشمیر کی صورت حال کے پیش نظر وزیر اعظم عمران خان کو دونوں حکومتوںکو برداشت کرنا پڑ رہا ہے آزاد جموں و کشمیر میں ان ہائوس تبدیلی کا بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا گیا کیونکہ راجہ فاروق حیدر کو جہاں آزاد جموںو کشمیر قانون اسمبلی کے ارکان کی بھاری اکثریت کی حمایت حاصل ہے وہاں ایسٹیبلشمنٹ نے بھی تحریک انصاف کو آزاد جموں و کشمیر میں ’’پولیٹیکل ایڈونچر ‘‘ کرنے کی اجازت نہیں دی راجہ فاروق حیدر جس انداز میں کشمیر کا کیس لڑ رہے ہیں موجودہ صورت حال میں کسی اور کشمیری لیڈر کے بس کی بات نہیں گذشتہ سال حکومت آزاد جموںو کشمیر نے یوم یک جہتی کشمیر پر آزاد جموںو کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کی دعوت دی تھی لیکن انہوں نے ’بوجوہ ‘‘ آزاد جموں کشمیر قانون ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کی دعوت قبول نہ کی اب کی بار وزیر اعظم عمران خان نے 5 فروری 2020ء کو آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کی دعوت قبول کر لی راجہ فاروق حیدر کا شمار میاںنواز شریف کے قابل اعتماد ساتھیوں میں ہوتا ہے وہ ان کے خلاف کسی محفل میں کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے لیکن انہوں نے 5اگست2019ء کو کشمیریوں کی شناخت ختم کرنے کے اقدام کے خلاف مظفر آباد میں بڑا جلسہ منعقد کیا تو کشمیر کاز کو اجاگر کرنے کے لئے وزیر اعظم عمران خان کو مہمان خصوصی بنایا اور کشمیر کے اطراف یہ پیغام دیا کہ پاکستان اور کشمیر کے عوام آزادی کشمیر کی تحریک میں ایک ’’صفحہ‘‘ پر ہیں اب کی بار 5فروری2020ء کو وزیر اعظم عمران خان نے آزاد جموں کشمیر قانون ساز اسمبلی کے خصوصی اجلاس سے خطاب کی دعوت قبول کر لی تو راجہ فاروق حید نے وزیر اعظم پاکستان کا شایان شان استقبال کیا ، راجہ فاروق حیدر اس منصب پر دوسری بار فائز ہیں جس پر مجاہد اول سردار عبدالقیوم ، خان عبد الحمید خان سردار سکندر حیات ممتاز راٹھور ، سردار عتیق احمد خان اور بیرسٹر سلطان محمود جیسی بڑی شخصیات متمکن رہی ہیں راجہ فاروق حیدر کے عظیم والد راجہ محمد حیدر خان کا تحریک آزادی کشمیر میں اہم کردار رہا ہے وہ مسلم کانفرنس کے صدر بھی رہے ہیں ۔ راجہ فاروق حیدر ایسے وقت میں وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہیں جب مقبوضہ کشمیر کے عوام اپنی شناخت کی جب لڑرہے ہیں پچھلے190ایام سے مقبوضہ کشمیر میںکرفیو نافذ ہے راجہ فارق حیدر کا شمار آزاد جموں کشمیر کے ان سیاست دانوں میںہوتا ہے جو پاکستان کے لئے درد دل رکھتے ہیں اور سر تاپا پاکستانی ہیں سردار محمد عبد القیوم خان کے ’’کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘ نظریہ کی جیتی جاگتی تصویر ہیں کشمیر میں پاکستان کے وکیل ہیں انہوںنے آزاد جموںکشمیر قانون اسمبلی کے اجلاس میں جہاں وزیر اعظم عمران خان کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا وہاں انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا کہ ’’ اپنا دامن کھولیں اور پاکستان میں اتفاق رائے پیدا کریں‘‘ انہوں نے کہا کہ وہ لوگوںکو گلے لگائیں کیونکہ قوم’’ تقسیم در تقسیم ‘‘ ہے انہوںنے وزیر اعظم عمران خان کو یہ مشورہ کشمیر کی صورت حال کے تناظر میں دیا تھا لیکن وزیر اعظم عمران خان نے ان کا مشورہ یکسر مسترد کر دیا اور کہا کہ ’’ کرپشن کے ذریعے ملک کا پیسہ لوٹ کر باہر لے جانے والوں سے مفاہمت نہیں ہو سکتی، جمہوریت جتنی بھی بری حالت میں ہو تب بھی وہ سب سے بہتر نظام ہے، بدعنوان عناصر کے خلاف میری یہ لڑائی ذاتی نہیں بلکہ پاکستان کے لئے ہے، کرپشن کی وجہ سے دنیا میں بھرپور وسائل رکھنے کے باوجود بہت سے ممالک پیچھے رہ گئے میں ایک ڈیموکریٹ ضرور ہوں لیکن اقتدار کے لئے ڈیموکریٹ نہیں ‘‘۔ وزیراعظم نے کہا کہ’’ اگر کوئی میرے گھر میں چوری اور کرپشن کرتا ہے تو کیا میں اس سے مفاہمت کر لوں؟۔ انہوں نے وزیراعظم آزاد جموں وکشمیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’’ آپ نے بھی کچھ شعر سنائے ہیں جبکہ میں بھی ایک شعر پیش کرتا ہوں
مفاہمت نہ سکھاجبر ناروا سے مجھے
میں سربکف ہوں کہ لڑا دو کسی بلا سے مجھے
وزیراعظم نے کہا کہ بدعنوان لوگ جو کرپشن کر کے پیسے باہر لے گئے ان سے مفاہمت کا مجھے نہ کہا جائے۔ چین کی ترقی کا راز 450سے زائد وزراء کو جیلوں میں ڈالنے مضمر ہے جبکہ امریکہ میں تیس تیس سال بعدکرپشن کرنے والوں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ راجہ فاروق حیدر نے جس جذبہ سے وزیر اعظم عمران خان کو مشورہ دیا انہوں نے اسی سپرٹ سے جواب نہیں دیا ۔ راجہ صاحب کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اس وقت حکومت اور اپوزیشن ’’حالت جنگ ‘‘ میں ہیں حکومت اپوزیشن کے چیدہ چیدہ رہنمائوں سے جیلیں آباد کرنے میں مصروف ہے جب کہ اپوزیشن حکومت گرانے کی کوشش کر رہی ہے اس صورت حال میں مسئلہ کشمیر حکومت اور اپوزیشن کی نظروں سے اوجھل ہو رہا ہے لہذا اس وقت ملک میں اتحاد و یک جہتی کی اشد ضرورت ہے پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’جنگ و جدل ‘‘ کی کیفیت پائی جاتی ہے بدقسمتی سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’ورکنگ ریلیشنز ‘‘ قائم نہیں ہو سکے پاک بھارت کی کشیدہ صورت حال کے پیش نظر پارلیمانی قیادت کے مشترکہ اجلاسوںمیں وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن رہنمائوں (جن کو وہ چور اور ڈاکو کے طعنے دیتے ہیں ) انکے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیا تو اپوزیشن نے بھی اپنے طرز عمل سے یہ پیغام دیا کہ وہ ان کے ساتھ مل بیٹھنے کے غم میں مرے جا نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے پچھلے ڈیڑھ سال میں اپوزیشن نے وزیر اعظم کو پارلیمان میںخطاب نہیںکرنے دیا عمران خان کو اس بات کا گلہ ہے کہ اپوزیشن نے انہیںپارلیمان میںخطاب نہیں کرنے دیا وہ ایسی اپوزیشن سے کیوںہاتھ ملائیں جو انہیں ’’منتخب ‘‘ نہیں ’’سلیکٹیڈ‘‘ وزیراعظم کا طعنہ دیتی ہے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس حد تک فاصلے بڑھ گئے ہیں کہ جن امور پر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان ’’بامعنی‘‘ مشاورت آئینی تقاضا ہے وہ بھی نہیں ہو پا رہی وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان ’’خط و کتابت‘‘ سے آگے بات نہیںبڑھ سکی ۔ دوسری طرف حکومت اور اتحادی بھی ’’دست و گریبان‘‘ نظر آتے ہے ہیں ابھی تک کوئی اتحادی حکومت کو چھوڑ کر الگ تو نہیں ہوا لیکن اتحادیوں بدلے بدلے تیور ’’خطرے‘‘ کی گھنٹی بجا رہے ہیں ۔ حکومتی حلقوں میں اتحادیوں کے ’’باغیانہ ‘‘ طرزعمل سے سراسیمگی کی کیفیت پائی جاتی ہے کسی وقت بھی اتحادی داغ مفارقت دے کر سیاسی منظر تبدیل کر سکتے ہیں لہذا وزیر اعظم عمران خان کو اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے لئے جہاں اپنی ’’تلوار‘‘ کو میان میں رکھنا ہوگا وہاں اتحادیوں کے ناز نخرے برداشت کرنے ہوں گے اور اپوزیشن سے جیلیں بھرنے کی بجائے اسے سینے سے لگانا چاہیے۔بصورت دیگر سیاسی جنگ و جدل کے نتیجے میں شکست ان کا مقدر بن سکتی ہے میدان سیاست میں مفاہمت کا ماحول پیدا کرنے سے کچھ وقت سکون سے گذر سکتا ہے ۔

ای پیپر دی نیشن