شہرۂ آفاق خطاط،مصوراورشاعرصادقین کی آج 33 ویں برسی منائی جارہی ہے ۔صادقین نے پوری دنیا میں اپنی مصوری اور خطاطی کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کالوہا منوایا ۔
صادقین30 جون 1920 کو ہندوستان کے شہر امروہہ (اترپردیش) میں پیدا ہوئے۔ان اصل نام سید صادقین حسین نقوی تھا۔ ان کا تعلق سادات خاندان سے تھا جو فنِ خطاطی کے حوالے سے مشہورتھا ، صادقین حسین کےداد بھی فنِ خطاطی کے ماہرتھے ۔آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم آبائی شہرامروہہ ہی میں حاصل کی ، بعد ازاں آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی ۔ تقسیم ہند کےبعد آپ اپنے خاندان کےہمراہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی ۔
پاکستان آنے کے بعد سید صادقین نے بہت ہی کم عرصے میں اپنی منفرد مصوری اور خطاطی کےجھنڈے گاڑ دیئے۔ صادقین کی شہرت کا آغاز میورلز سے ہوا جو انہوں نے کراچی ایئر پورٹ،سروسز کلب ، , سینٹرل ایکسائز لینڈ اینڈ کسٹمز کلب اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی لائبریری میں بنائیں۔
1956 میں 25 برس کی عمر میں ان کے فن پاروں کی نمائش اس وقت کے وزیراعظم حسین شہید سہروردی کے گھر پر منعقد کی گئی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی مصوری اور خطاطی کا یہ سلسلہ دنیا بھر میں پھیل گیا۔ 1961 میں شہرہ آفاق فن پارہ "وقت کا خزانہ " تخلیق کیا جس میں 46 عظیم مفکرین ،فلسفیوں اور سائنسدانوں کی منظر کشی کی ۔صادقین نے مرزا غالب کی شاعری کو اپنے فن خطاطی اور مصوری کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔
صادقین فاؤنڈیشن کے مطابق انہوں نے خطاطی اور مصوری کے 15ہزار سے زائد نمونے تخلیق کیے۔ان کی خطاطی کے نمونے فیصل مسجد اسلام آباد ،فریئرہال کراچی،صادقین آرٹ گیلری اور دنیا کے ممتاز عجائب گھروں میں رکھے گئے ہیں ۔مصوری اور خطاطی کے علاوہ انہوں نے شاعری بھی کی اور تقریبا 3 ہزار رباعیات تحریر کیں اور بہت کم شاعر ایسے ہیں جنہوں نے اتنی زیادہ تعداد میں رباعیات لکھی ہوں۔ان کی رباعیات بھی اسی قدر کمال کی ہیں جس قدر ان کی مصوری کے شاہکار کمال کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کی رباعیات کا مجموعہ رباعیات صادقین خطاط اور رباعیات صادقین نقاش کے نام سے موجود ہے۔
صادقین 10فروری 1987 کو57 برس کی عمر کراچی میں انتقال کرگئےتھے ۔ کراچی کے فریئر ہال کی 80 فٹ لمبی اور 35 فٹ چوڑی چھت پر پینٹنگ ان کا آخری فن پارہ تھا ۔ صادقین کا فن انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔