اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) پاکستان سٹیل ملزسے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی ہے کہ ملازمین اور سٹیل ملز کے وکلا بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالیں۔ عدالت نے نجکاری کمیشن اور وزارت صنعت و پیدوار سے دو ہفتے میں جواب طلب کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ عدالت کوآگاہ کیا جائے کہ سٹیل مل کے حوالے سے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟۔ سیکرٹری نجکاری کمیشن عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ وفاقی وزرا بتائیں سٹیل مل کیساتھ کیا کرنا ہے؟۔ سٹیل مل پر روزانہ کا خرچہ بلاوجہ ہورہا ہے۔ سرکار کا پیسہ بانٹنے کے لیے نہیں ہوتا؟۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری نجکاری سے استفسار کیاکہ کیوں نہ سٹیل مل کا روز کا خرچہ آپ سے ریکور کریں۔ آپکی ناکامی ہے جو سٹیل مل پر خرچہ ہورہا ہے۔ کیا آپکو اس پیسہ کے جانے کا کوئی درد نہیں؟۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ گزشتہ سماعت کے بعد کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سٹیل مل میں بجلی پانی تنخواہیں سب کچھ مل رہا ہے بس مل بند ہے۔ کسی سرکاری افسر کو پرواہ نہیں سب گھروں میں سو رہے ہیں۔ سٹیل مل میں 450 افسر کیاکریں گے؟۔ تمام افسروں کو ایک لیٹر سے گھر بھجوائیں۔ سٹیل ملز کے چیئرمین بیرون ملک گھوم رہے ہیں۔ سی ای او کے گھر کا گھیرائو ہے تو حکومتی رٹ ناکام ہو گی۔ ہر طرف مکمل طور پر بے بسی کا عالم ہے۔ وفاقی وزیر برائے نجکاری محمد میاں سومرو نے کہا کہ واجبات ختم ہونے کے بعد ہی نجکاری کا عمل مکمل ہوگا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ نجکاری ماضی میں بھی کالعدم ہو چکی ہے۔ وفاقی وزیر نجکاری نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم سٹیل مل کی نجکاری نہ کریں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نہیں کہہ رہے کی نجکاری نہ کریں لیکن عدالتی فیصلے کو مدنظر رکھیں۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ بنیادی طور پر سٹیل مل کو لیز پر دیا جائے گا۔ سٹیل مل کی ملکیت حکومت کے پاس ہی رہے گی۔ محمد میاں سومرو نے کہا کہ سٹیل مل کے اثاثوں کی مالیت 100 ملین ڈالر ہے۔ ستمبر یا اکتوبر میں سٹیل مل کی بولی لگنے کا امکان ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا نہ ہو پھر کوئی غیر ملکی ثالثی ٹربیونل جائے اور جرمانہ ہو جائے۔ محمد میاں سومرو نے کہا کہ واجبات ادا کرکے سٹیل مل کو پرکشش بنائیں گے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ منصوبہ تحریری طور پر پیش کریں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسد عمرآپکی ٹیم کیا کر رہی ہے؟۔ اس پر اسد عمر کا کہنا تھا کہ مجھے علم نہیں کہ عدالت بلایا کیوں گیا ہے؟۔ پلاننگ کمیشن کا سٹیل مل کی نجکاری سے کوئی تعلق نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں صنعتی انقلاب لائیں کس نے روکا ہے؟۔ سٹیل مل میں 40 تو کیا پانچ افسر بھی نہیں رہنے دیں گے۔ ملازمین کی اصل تنظیم سی بی اے ہوتی ہے۔ سی بی اے کے سوا باقی تنظیموں کی حیثیت نہیں۔ مل بند پڑی ہے ملازمین کو پیسے کس بات کے دیں۔ تو ملازمین کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ مل بند پڑی ہے تو ذمہ دار انتظامیہ ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سٹیل مل مردہ گھوڑا ہے کتنا عرصہ کھائیں گے۔
ملازمین سٹیل ملز کے وکلا مسئلے کا حل نکالیں افسروں کو ایک لیٹر سے گھر بھجوائیں گےجسٹس گلزار
Feb 10, 2021