بک رہاہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

 مکرمی : دل کو بہلانے کیلئے عوام میں کبڈی، کبڈی کھیلنے کا رواج زمانہ قبل ازتاریخ سے رائج ہے۔ آج کل عوام کو بہلانے کے لئے ’’ کمیٹی، کمیٹی‘‘ بنانے کا کھیل رائج ہو گیا ۔ ایسی مثالیں تو درجنوں ہیں مگر نمونے کے طور پر صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ ایک سال پہلی ملک پر چھائے ہوئے بہت سے مافیاز میں سے ایک  نے روز مرہ کی ایک ضروری چیز کی مصنوئی قلت پیدا کرکے چار دن  میں عوام کی جیب سے دو ارب روپے ہتھیالئے تھے۔ اس واقعے کے چھ ماہ بعد ملزموں کی نشان دہی کے لئے کمیٹی بنا دی گئی جس نے بڑی محنت سے تحقیق کرکے ملزموں کی نشان دہی کر دی اور کچھ سفارشات بھی پیش کیں۔یہ معاملہ ایوان اقتدار میںپیش ہوا تو پہلے تو اس مافیا کے خلاف سخت ترین اقدامات کا اعلان ہوا۔ مگر بحث مباحثے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ کمیٹی کی سفارشات پر غور کرنے کے لئے مزید کمیٹی بنا دی گئی اور دروغ برگردن راوی یہ افواہ بھی سنی گئی ہے کہ اس کمیٹی کو یہ بھی کہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی تحقیقات ڈھائی سال میں مکمل کرکے پیش کرے۔’’ واہ  واہ سبحان اللہ‘‘! یاد رہے کہ ڈھائی سال کی مدت مقرر کرنے میں بڑی شاطرانہ چال ہے جس کا راز افشا کرنے کے لئے ایسا ہی شاطرانہ شعر حاضر ہے۔
میرے محبوب نے وعدہ کیا ہے پانچویں دن کا …کسی سے سن لیا ہوگا یہ دنیا چار دن کی ہے
 پیارے قارئین راقم گورنمنٹ کالج ہوشیار پور کی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا تین سال تک جائنیٹ سیکرٹری رہا ہے اور قیام پاکستان کے لئے اپنی بساط کے مطابق والہانہ جذباتی جدوجہد کی ہے اس سلسلے میں پولیس کے تشدد کا نشانہ بنا اور چار دن تک جیل کی ہوا ابھی کھائی۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے خون کی پیاسی جماعت’’ آرایس ایس ‘‘ کے ناکام قاتلانہ حملے میں زخمی بھی ہوا۔ (یاد رہے کہ ہندوستان کا موجودہ وزیر اعظم اسی خونی جماعت کا بچپن ہی سے سر گرم کارکن ہے)۔ بد قسمتی سے قیام پاکستان کے دوران ہی سے اب تک اس ملک میں سیاسی ، اقتصادی، سماجی اور اخلاقی گراوٹ کا تسلسل دیکھ کر غم دل اب وحشت دل میں تبدیل ہو رہا ہے۔ اس لئے اپنی خون سے بھری آنسوئوں کی آہ و فغان کو یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ …کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
(چراغ سحری لیٹنینٹ کرنل ریٹائرڈ حامد محمود راولپنڈی)

ای پیپر دی نیشن