ماہرین سماجی و معاشرتی علوم اس بات پر متفق ہیں کہ صرف عمل پر یقین رکھنے والی اقوام ہی ترقی کے مراحل طے کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔ کئی تو قلیل عرصہ میں ترقی کی منازل طے کر گئیں اور بعض بے عملی کی وجہ سے کئی صدیوں سے بھٹک رہی ہیںنیز فرد معاشرہ کی بنیادی اکائی ہے اورقوموں کے عروج و زوال میں فرد ہی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ حیات انسانی کے اس وسیع فلسفہ کو دنیا کے عظیم فلسفی حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے ایک شعر میں بیان کردیا۔ فرمایا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اگر افراد کی تعلیم و تربیت کا موثر اہتمام کر لیا جائے تو کوئی طاقت ترقی سے نہیں روک سکتی۔مشاہدہ یہ ہے کہ کرہ ارض پر بعض اقوام کے افراد کی کثیر تعداد سستی اور کاہلی کا شکار ہے، منزل کا تعین کوئی نہیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہے۔ پنجابی ادب کے معروف شاعر جناب منیر نیازی نے اس رویہ کی کیا خوب منظر کشی فرمائی
سورج چڑھیا پچھم توں
تے پورب آن کھلویا
اج دا دن وی ایویں لنگھیا
کوئی وی کم نہ ہویا
گزشتہ ایک کالم’’ نیا سال آیا نیا سال آیا ‘‘ میں راقم نے لکھا کہ سال نو کے موقعہ پر ملک عزیز میں ایک کثیر تعداد جس وقت آتش بازی اور دیگر خرافات کے ساتھ نئے سال کا استقبال کر رہی ہوتی ہے تو اسی وقت ایک سنجیدہ طبقہ ایک مفید پروگرام کے ذریعے سال نو کو یادگار بنانے اورکامیابیاں سمیٹنے کی تیاریوں میں مصروف ہوتا ہے۔ اس پروگرام کا نام انہوں نے نئے’’سال کی قرار داد ‘‘ یعنی’’ نیو ائیر ریزولوشن ‘‘ رکھا جس کا مفہوم ہے کہ’’سال کے آغازمیں ہی کسی فرد کا اپنے آپ سے کچھ مثبت امور کا آغاز اور منفی عادت کو ترک کرنے کا عہد ‘‘ نیو ائیر ریزولوشن کامیاب زندگی اور تعمیرشخصیت کا مجرب نسخہ ہے یہی وجہ ہے کہ مشرق و مغرب میں بہت مقبول ہے۔نیو ائیر ریزولوشن کا تعلق مستقبل کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی اور نظم و ضبط سے ہے جو کہ تعمیر شخصیت کے بنیادی اجزا میں سے ہیں۔
نئے سال کی قرارداد کوئی راکٹ سائنس نہیں بلکہ اس کاطریقہ کار انتہائی سادہ ہے۔فرد مصمم ارادہ کے ساتھ یہ نیت کرے کہ تبدیلی کی باتیں بہت ہو گئیں اب حالات کو بدلنا ہے۔ اس کے بعداپنا تجزیہ کرے۔ اپنی صلاحیتوں ، شخصی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لے۔ آسان اور حقیقت پسندانہ اہداف مقرر کرے اور ان کے حصول کے لیے ٹھوس لائحہ عمل تیار کرے۔ مثلاً اگر صحت کے حوالے سے متفکر ہے تو روزانہ باقاعدگی سے ورزش کرنے کا ہدف بنائے۔قرارداد فرد کی فوری ضرورت ، ہمت اور قوت ارادی کو دیکھتے ہوئے ایک یا ایک سے زیاد ہ اہداف پر مشتمل ہوسکتی ہے۔کامیابی کے لیے بنیادی اصول یہ ہے کہ قراردادپاس کرنے والااپنے اہداف سے کتنا مخلص ہے اور کتنی مضبوط قوت ارادی کا مالک ہے۔ راقم کے خیال میں ہر سال اگر کم از کم ایک مثبت عادت کوہی اپنا لیا جائے اور ایک منفی عادت سے نجات حاصل کر لی جائے اور اس پر قائم رہے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔
چونکہ فرد کا یہ عہد اپنے آپ سے ہوتا ہے اس لیے اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا بھی اس کی ہی ذمہ داری ہے اوراپنا احتساب بھی خود ہی کرنا ہوتا ہے۔یاد رہے کہ دنیا کے کامیاب لوگوں کی عظیم کامیابیاں اتقاقی یا حادثاتی نہیں بلکہ ان کے شعوری فیصلوں کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے اپنی منزل کا تعین کیا اور استقامت سے جدوجہد کی اورآخر کارکامیابیوں سے سرفراز ہوئے۔ ماہرین کی رپورٹ کے مطابق یہ قرارداد ناکام اس لیے ہوتی ہے کہ مقاصد کا تعین تو آسان ہوتاہے لیکن اس کے لیے جس ہمت اور محنت کی ضرورت ہے وہ نہیں کی جاتی۔
نئے سال کی قرار داد کے اہداف ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کے لیے مختلف ہو سکتے ہیں۔ یہ قرارداد فرد کی صحت کے بارے میں بھی ہو سکتی ہے،اس کی عملی زندگی کے بارے میں بھی ہوسکتی ہے اور گھریلو یا معاشرتی زندگی کے بارے میں بھی ہوسکتی ہے۔ باقاعدگی سے ورزش، صحت مند طرز زندگی ، متوازن خوراک ،تمباکو نوشی سے اجتناب،وقت کی پابندی ،عملی زندگی میں ترقی ، بچت کی عادت ،اخلاقی امراض مثلاً جھوٹ ، بدزبانی ،غیبت ،چوری ،رشوت سے اجتناب نیو ائیر ریزولوشن کے اہداف کی چند مثالیں ہیں۔نئے سال کی قرار داد کے کچھ مقاصد جلیلہ مثلاً نماز کی پابندی، قرآن حکیم کی تلاوت کا معمول اور خدمت خلق کا ارادہ بھی ہوسکتے ہیں۔