دولت اور غربت 

دولت کے معنی گردش کرنے کے ہیں۔ جن معانی میں دولت کا لفظ ہمارے ہاں استعمال ہوتا ہے، ان معانی میں یہ لفظ قرآن کریم میں نہیں آیا۔ مال و دولت خدا کا انعام ہے۔ لیکن دولت، مقصود بالذات نہیں، مختلف مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ دولت کا اچھا یا بُرا ہونا، اس مقصد کی نسبت سے متعین ہو گا جس کے حصول کے لیے اسے صرف کیا جائے گا۔ دولت کو خدا کے بتائے ہوئے جائز طریقوں سے حاصل کرنا اور پھر اس کے متعین کردہ مقاصد کے حصول کے لیے صرف کرنا، یہ ہے مومن کا طریق زندگی۔ محض دولت عزت و تکریم کا معیار نہیں قرار پا سکتی۔ انبیاء کرامؑ کی دعوت انقلاب پر سب سے پہلے غریبوں کی جماعت لبیک کہتی تھی۔ کیوں کہ وہ انقلاب دنیا سے چھین لینے کا نظام مٹا کر اس کی جگہ ایسا نظام لایا جاتا تھا جس میں کوئی انسان کسی دوسرے کی محنت پر ڈاکہ نہ ڈال سکے۔ یہی وجہ تھی کہ دولت مند طبقہ اس دعوت کی مخالفت میں سب سے آگے بڑھتا تھا۔ یہ طبقہ ہر جائز اور ناجائز طریقہ سے دولت کماتا ہے۔ غلط معاشرہ ان کے محض دولت مند ہونے کی وجہ سے انھیں عزت و تکریم کا بلند مقام دے دیتاہے۔ اس طرح وہ اپنی دولت و قوت کے نشہ میں بدمست ہو کر حق کی آواز اور اس آواز کو بلند کرنے والی غریبوں کی جماعت کا تمسخر اڑاتا، انھیں اذیتیں پہنچاتا اور چاہتا ہے کہ اس نئے نظام میں انھیں محض دولت کی بنا پر بلند مقام دیا جائے۔
قرآن کریم کی سورہ الانعام کی آیت 52 کا ترجمہ ہے (اور دور نہ کرو انھیں جو اپنے رب کو پکارتے ہیں، صبح اور شام، اس کی رضا چاہتے، تم پر ان کے حساب سے کچھ نہیں اور ان پر تمہارے حساب سے کچھ نہیں۔ پھر انھیں تم دور کرو تو یہ کام انصاف سے بعید ہے۔ اور یونہی ہم نے ان میں سے ایک دوسرے کے لیے فتنہ بنایا۔ مالدار کافر، محتاج مسلمانوں کو دیکھ کر کہیں کیا یہ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا ہم سے، کیا اللہ خوب نہیں جانتا حق ماننے والوں کو) 
 مال و دولت کی فراوانی سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہئیے کہ زندگی کا مقصد حاصل ہو گیا۔ مقصد اسے حاصل ہو گا جو اس کے ساتھ احکام خداوندی پر عمل کرے گا۔ہر رسول کی مخالفت بڑے لوگوں نے کی اور خدا نے آخرالامر اسی جماعت کو ان کے ملک کا وارث بنایا۔ جس بستی کے دولت مند لوگ جرائم پر اتر آتے ہیں، وہ ہلاک ہو جاتی ہے۔ سرمایہ داری کی ذہنیت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہم نے اپنی ہنر مندی سے کمایا ہے اس لیے اسے ہم جس طرح چاہیں، تصرف میں لائیں۔ غلط کار دولت مندوں پر جب گرفت ہوتی ہے تو وہ چلانے لگ جاتے ہیں۔ جس معاشرہ میں یتیموں کی تکریم اورمسکینوں کی روٹی کا انتظام نہیں ہوتا وہ ذلیل و خوار ہو جاتا ہے۔ 
معروف دانشور رانا احتشام ربانی کی ایک تحریر ہے کہ ’’بے چارے غریب انسان، پیدائش غربت میں، موت غربت میں۔ امارت اور غربت، قدرت کا امتحان یاانسانوں کا بنایا نظام۔ دنیا میں امیر کیسے بنے؟ غربت کہاں سے آئی؟ زمین کی ملکیت نہ کسی قوم، مذہب، ملت، عقیدہ کی نہ کسی طاقتور کی۔ زمین سانجھی، پیدا ہونے والے ہر انسان کی۔ زمین پر نظام، انسانوں کی براری کا درجہ۔ ایک دوسرے کو ایک جیسا انسان سمجھ کر۔ زمین کے وسائل و ذرائع شراکت داری کے ساتھ۔ سب کی ذمہ داری کے ساتھ۔ نہ کوئی پیدائش غربت میں، نہ رہنا سہنا غربت میں۔ سب جئیں زندگی کی سہولتوں کے ساتھ۔ انسانیت آباد رہے، خوشیوں کے ساتھ‘‘ 
پس نوشت: لندن میں میرے دوست طارق عزیز نے فیس بک پر ایک تحریر وائرل کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔ 
شام کوایک لڑکی محلے میں ایک سیٹھ کے گھر آئی اور مسکراتے ہوئے کہا۔ مبارک ہو، قرعہ انداز ی میں آپ کا انعام نکل آیا ہے۔ ہماری کمپنی کی طرف سے آپ اور آپ کی فیملی کے لیے ایک عدد تحفہ۔ ایک فلم کے شو کی ٹکٹیں۔ ساتھ ہی کچھ کھانے پینے کی چیزیں بھی قبول کیجئے۔ 
یہ سب ہم اپنی کمپنی کی مشہوری کے لیے کر رہے ہیں۔ رات کو جب فیملی فلم دیکھ کر واپس آئی تو ان کے گھر ڈکیتی کی واردات ہو چکی تھی۔ پورا گھر سامان سے خالی کیا جا چکا تھا۔ وہیں ہر ایک خط پڑا ملا، جس پر لکھا تھا ’’امید ہے فلم پسند آئی ہو گی‘‘ 
خلاصہ: ایک کروڑ نوکریاں، چالیس لاکھ گھر، پانچ سو ڈیم، دس ارب درخت۔ سال کے بارہ موسم (فلموں کی ٹکٹوں) کی صورت میں دکھا کر ملک میں واردات کر دی ہے۔ امید ہے آپ کو بھی یہ فلم ’’پسند آئی ہو گی۔ بس آپ لوگوں نے گھبرانا نہیں ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن