برطانوی عدالتی فیصلہ۔۔۔۔  ’’شہباز شریف اور ڈیلی میل‘‘

لندن ہائی کورٹ میں جمعہ کے روز 5 فروری 2021 کو شہباز شریف او ران کے داماد علی عمران کی جانب سے دائر ہتک عزت کیس کی سماعت ہوئی۔ شہباز شریف اور ان کے داماد علی عمران نے ہتک عزت کا کیس ڈیلی میل کے رپورٹر ڈیوڈ روز کے 14 جولائی 2019 کے شائع ہونے والے مضمون کے تناظر میں دائر کیا  تھا جس میں ڈیوڈ روز نے الزام عائد کیا تھا کہ برطانیہ کی جانب سے دی جانے والی امداد کو درست استعمال نہ کیا گیا ہے اور شہباز شریف منی لانڈرنگ سے مستفید ہوئے ہیں۔ شہباز شریف کو  یو کے ڈیفڈ کا پوسٹر بوائے کہا گیا تھا۔ برطانیہ کے مشہور اخبا رڈیلی میل کے رپورٹر ڈیوڈ روز نے اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد کئی بار ٹویٹ کر کے شہباز شریف کو چیلنج کیا تھا کہ اگر ان کے مضمون میں شائع ہونے والے الفاظ سے ان کی  شہرت کو نقصان پہنچا ہے تو وہ برطانوی عدالت میں ہتک عزت کا کیس دائر کر سکتے ہیں۔آخر کار شہباز شریف نے30 جنوری 2020 کو برطانوی عدالت میں ہتک عزت کا کیس دائر کر دیا۔ جس میں ڈیلی میل کے رپورٹر ڈیوڈ روز، ڈیلی  میل اور ایسوسی ایٹ  نیوز لمیٹڈ کو فریق بنایا گیا تھا۔یہ مقدمہ شہباز شریف اور ان کے دامادعلی عمران کی جانب سے الگ الگ وکلاء صاحبان کے ذریعے دائر کیا گیا تھا۔برطانیہ کے قانونی نظام میں کیس دائر کرنے کے بعد ابتدائی سماعت ہو تی ہے تاکہ دائر مقدمہ کا ابتدائی جائزہ لیا جا سکے  لہٰذا تقریباً ایک سال گزرنے کے بعد اس مقدمہ کی ابتدائی سماعت ہوئی۔ ابتدائی سماعت میں تاخیر کی وجہ کرونا کی وبا کو قرار دیا جاتا ہے جو کہ دیگر برطانوی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں تاخیر کی وجہ بن رہی ہے۔ برطانوی ہائی کورٹ کے جج نکلین نے قرار دیا کہ اخبار کے مضمون کے لکھے گئے الفاظ سے شہباز شریف اور ان کے داماد علی عمران کی  ہتک عزت ہوئی ہے۔ برطانوی ہائی کورٹ نے ہتک عزت کے مقدمہ میںلیول ون قرار دیاجو کہ انتہائی نوعیت کے ہتک عزت کے شواہد کی بنیاد  پر قرار دی جاتی ہے جب کہ برطانوی عدالت لیول ٹو یا لیول تھری بھی قرار دے سکتی تھی جو کہ مناسب ہتک عزت کی وجوہات کی بنیاد پر لیول ٹو جبکہ مزید شواہد درکار ہیںکہ ہتک عزت ہوئی ہے کو لیول تھری قرار دیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں ہتک عزت کا قانون انتہائی سخت تصور کیا جاتا ہے۔ اگر ثابت ہوجائے کہ ہتک عزت ہوئی ہے تو بھاری معاوضہ اور جرمانہ کا حکم بھی دیاجاتا ہے۔ جب کہ سنگین نوعیت کی بنیاد پر عدالت کے پاس اختیار ہے کہ قید یا دیگر سنگین سزا کا حکم صادر کیا جا سکتا ہے۔ برطانوی ہائی کورٹ کے جج جسٹس نکلین کے لیول ون قرار دینے کے بعد ڈیلی  میل ، رپورٹر ڈیوڈ روز اور ایسوسی ایٹ نیوز لمیٹڈ پر  لازم ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ  شائع ہونے والا مضمون اور اس میں شائع ہونے والے الفاظ کی بنیاد مناسب ثبوت تھے گویا کہ اب باقاعدہ مقدمے کا آغاز ہوا ہے اور آئندہ سماعتوں پر کیس کا فیصلہ ڈیلی  میل، رپورٹر ڈیوڈ روز اور ایسوسی ایٹ  نیوز لمیٹڈ کی جانب سے فراہم کردہ ثبوتوں کی موجودگی سے کیا جائے گا۔ دلچسپ امر یہ کہ ڈیوڈ روز نے ابتدائی سماعت کے بعد ٹویٹ کیا ہے جس میں وہ انتہائی مطمئن اور آئندہ سماعت کے لیے پر عزم  ہیں۔ 
ڈیلی میل اخبار14جولائی 2019 کی شائع ہونے والے مضمون سے قبل برطانیہ  میں تحریک چلا رہا تھا کہ برطانیہ کی جانب سے فراہم کی جانے والی امداد کو  تیسری دنیا میں  درست طریقے سے استعمال نہ کیا جاتا ہے اور یہ رقم کرپشن کا باعث بنتی ہے۔ یہ برطانوی شہریوں کے ٹیکس کی رقم ہوتی ہے جو کہ سراسر برطانوی ٹیکس دہندہ کی رقم کا ضیاع ہے۔ 
ڈیلی میل اخبار برطانوی حکومت کے ادارے میں بین الاقوامی ترقی کی جانب سے فراہم کی جانے والی رقوم کو ٹیکس دہندہ کی رقوم کا ضیاع قرار دے رہاتھا۔ اس ضمن میں ڈیلی میل کے رپورٹر ڈیوڈ روز نے  14جولائی 2019 کو ا یک مضمون شائع کیا جس  میں برطانوی حکومتی ادارے برائے بین الاقوامی کی جانب سے صوبہ پنجاب کو 2005 کے زلزلہ متاثرین کی بحالی کے لیے فراہم کی گئی امداد کو کرپشن کا ذریعہ قرار دیااور اس رقم سے کک بیکس اور کمیشن کا ذکر بھی کیا۔ اس کرپشن میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ان کے داماد علی عمران کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔ یہ رقم زلزلہ بحالی اور تعمیر اتھارٹی کو فراہم کی گئی تھی تاکہ اسے زلزلہ متاثرین کی بحالی کے لیے استعمال کیا جا سکے جس  میں سکولوں کی مرمت اور  تعمیر نو شامل تھی۔ان الزامات کے جواب میں برطانوی حکومت نے واضح کیا تھا کہ تمام رقوم میں آڈٹ کیا گیا تھااور جس مقصد کے لیے رقوم کو دیا گیا تھا اس کو باقاعدہ چیک بھی کیا گیا تھا۔ برطانوی حکومت نے ان رقوم میں کرپشن اور کک بیکس کے الزامات کو غیر سنجیدہ اور عدم ثبوت کی بنیاد قرار دیا تھا۔(جاری)

ای پیپر دی نیشن