بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی بصیرت مسلمہ ہے۔ ان کے بدترین مخالف بھی ان کی دوراندیشی اور اعلیٰ سیاسی فہم و بصیرت کے مداح تھے ۔ چنانچہ پنڈت جواہر لال نہرو کی ہمشیرہ وجے لکشمی پنڈت نے بانیٔ پاکستان کو زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا:
ـ’’اگرایک سو گاندھی، ایک سو نہرو، ایک سو پٹیل اور ایک سو ابوالکلام آزادؒ مسلم لیگ کے پاس ہوتے اور کانگریس کے پاس صرف قائد اعظم محمد علی جناح ؒہوتے تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا!ـ‘‘ یہ جناح صاحب کی سیاسی دور بینی تھی کہ انھیں مستقبل کے دبیز پردوں میںلپٹا ہوامسلمانانِ کشمیر کا مستقبل دکھائی دے رہا تھا۔ انھیں علم تھا کہ ڈوگرہ راج کے بعد ہندوستانی سرکار کشمیری مسلمانوں کو تیسرے اور چوتھے درجے کا شہری سمجھے گی ۔یہی وجہ تھی کہ وہ کشمیر پر دوٹوک مؤقف رکھتے تھے اور مسلمانانِ کشمیر کی آزادی کے لیے ہردم بے چین رہتے تھے۔ جناح صاحب کے ذاتی معالج ڈاکٹر ریاض علی شاہ اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں۔ قائد اعظمؒ نے فرمایا:
"Kashmir is the jugular vein of Pakistan and and no nation or country would tolerate it's jugular vein remain under the sword of enemy"
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بانیٔ پاکستان نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ (jugular)کیوں قرار دیا؟ جواب بڑا واضح اور دو ٹوک ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مسئلۂ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ تقسیم کے وقت جب تمام ریاستیں پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ ضم ہوگئیں تو مسلمانانِ کشمیر کی سانسیں پاکستان کے ساتھ دھڑک رہی تھیں ۔ لیکن بد قسمتی سے ان کی مرضی کے برعکس ہندو بنیے نے کشمیر پر قبضہ جمالیااور ڈوگرہ راج کے بعد انھیں جبر و استحصال کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ۔ مسلمانان ِ کشمیر کی نمائندہ سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کے زعماء نے قیام پاکستان سے چند روز قبل19جولائی1947ء کو سری نگر میں غازیٔ ملت سردار محمد ابراہیم خان صاحب کے گھر جنرل کونسل کے اجلاس میں ایک متفقہ قرار داد کے ذریعے الحاق پاکستان کا اعلان کردیاتھا ۔ کشمیر کے عوام تقسیم ہند سے لے کر آج تک پاکستان کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں ۔ ـ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کی صدائے بازگشت ہر روز وادی میں گونجتی ہے۔ تین چوتھائی صدی گزرجانے کے باوجود آج بھی مسلمانانِ کشمیر اپنے شہداء کے اجساد کو پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کرتے ہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اہلِ کشمیر کی پاکستان کے ساتھ شدید جذباتی وابستگی ہے اور یہ رشتہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پختہ تر ہوتا جارہا ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام ِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہوناچاہیے ۔ اقوام ِ متحدہ کی قراردادیں واضح طور پر تحریک آزادی ٔ کشمیر کوبین الاقوامی اعتبار سے ٹھوس آئینی اور قانونی جواز فراہم کرتی ہیں ۔ان قراردادوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اہلِ کشمیر اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کریں ۔ ایسی ہی ایک قرارداد کی بنیاد پر پاکستان مسئلہ کشمیر کا بنیادی فریق بھی قرار پاتا ہے ۔ ہندوستان سمیت اس کے تمام اتحادی اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اہلِ کشمیر ہر قیمت پر پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان ہمیشہ کشمیریوں کوحق خود ارادیت دینے کی بات سے منحرف ہوتارہاہے۔ اگرچہ پنڈت جواہر لال نہرو نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملنا چاہیے لیکن بعد ازاں ہندوستانی قیادت جواہر لال نہرو کے اصولی موقف سے پیچھے ہٹ گئی اور استصواب رائے کے معاملے پر ہندوستان ہمیشہ آئیں بائیں شائیں کرتا رہا۔ اسے بخوبی علم ہے کہ پاکستان کی محبت کشمیریوں کے رگ وپے میں دوڑتی ہے اور موقع ملنے پر وہ اپناوزن پاکستان کے پلڑے میں ڈالیں گے ۔
مسئلۂ کشمیر کے تاریخی اور سیاسی پس منظر کے ساتھ ساتھ ایک نظریاتی پس منظر بھی ہے جسے تسلیم کیے بغیر اس کی درست تفہیم ممکن نہیں ۔ تقسیم ہند کے وقت کشمیر کی اکثریتی آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی جو کلمہ طیبہ کے نام پر وجود میں آنے والے جدید دنیا کے واحد ملک پاکستان کا حصہ بننا چاہتے تھے ۔ ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان سے محبت ایمان کے بنیادی تقاضوں میں سے ہے۔ یہ ایمان ہی در اصل وہ بنیادی جوہر ہے جو ایک نظریہ بن کر مسلمانان ہند کی پہچان بنا اور دوقومی نظریے کی صورت میں عملاـََظہور پذیرہوا۔ یہی دوقومی نظریہ تشکیل پاکستان کی بنیاد بنا۔ اہلِ کشمیر بھی اس نظریے سے کامل اتفاق کرتے ہوئے خود کو ہندوئوں سے الگ قوم سمجھتے ہیں اور لا الہ الااللہ کی بنیادپر ملت واحدہ کا جزولاینفک ہیں ۔ چنانچہ جب بھی مقبوضہ کشمیر میںکسی بچے ، بوڑھے یا جوان پر ظلم کی کوئی خبر آتی ہے توہرپاکستانی تڑپ اٹھتا ہے اور مودی کے خلاف سراپا احتجاج ہوتا ہے۔ یہی وہ رشتۂ اخوت ہے جس کے متعلق مولانا ظفر علی خان ؒنے کہا تھا:
اخوت اس کو کہتے ہیںچبھے کانٹا جو کابل میں
تو دلی کا ہر پیر و جواں بے تاب ہوجائے!
رواں ہفتے 5 فروری کو پاکستان کی طرف سے قومی اور عالمی سطح پر اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا لازوال اظہارکیا گیا ہے ۔ ہماری جملہ سیاسی قیادت بھی آزاد کشمیر میں موجود تھی جس کو اہلِ کشمیر قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔
’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ‘ اس بیانیے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی زراعت کا زیادہ تر انحصاردریائی پانی پر ہے ۔ پاکستان کی طرف بہنے والے تمام دریاؤں کے منابع کشمیر میں واقع ہیں ۔بھارت ان دریاؤں پر ڈیم بنا کر پاکستان کو اس کے حصے کے پانیوںسے محروم کرتا جارہا ہے۔ بھارت کے گزشتہ ریاستی انتخابات میں نریندر مودی دریائے سندھ کے حوالے سے واشگاف الفاظ میں اپنے ناپاک عزائم کا اظہار کر چکا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کے فیصلہ ساز پاکستان کو ریگستان بنانے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ پاکستانی قوم یہ حقیقت سمجھتی ہے اور اسی لیے قائدؒ کے فرمان کے مطابق کشمیر کو اپنی شہ رگ قرار دیتی ہے اور اپنی شہ رگ کو دشمن کے دستِ تطاول سے چھڑانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جائے گا۔