ویڈیو کی ٹائمنگ پر نہیں بلکہ ووٹ بکنے پر سوال ہونا چاہیئے،اپوزیشن نے اوپن بیلٹنگ پر میری بات نہ مانی تو روئیں گے.عمران خان

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت اور مولانا فضل الرحمان سب کو پتہ ہے کہ سینیٹ الیکشن میں  پیسہ چلتاہے اور مولانا فضل الرحمان نے تو سب سے زیادہ پیسہ بنایا ہے ،اس وقت بلوچستان میں ایک سینیٹر بننے کا ریٹ 50سے70کروڑروپے جارہا ہے۔ویڈیو کی ٹائمنگ پر نہیں بلکہ ووٹ بکنے پر سوال ہونا چاہیئے، ویڈیو گزشتہ روز پہلی مرتبہ دیکھی۔ اپوزیشن نے اوپن بیلٹنگ پر میری بات نہ مانی تو روئیں گے۔ میں مسلم لیگ (ن)کے اوپن بیلٹ کے مطالبہ کی حمایت کرچکا ہوں۔ مسلم لیگ (ن)اور پاکستان پیپلز پارٹی میثاق جمہوریت میں اوپن بیلٹ کا معاہدہ کرچکی ہیں۔ ان خیالات کااظہار وزیر اعظم عمران خان نے راولپنڈی کی تحصیل کلر سیداں میں احساس پروگرام کے حوالہ سے منعقدہ تقریب میں شرکت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سینیٹ الیکشن میں  لوگ اپنے ضمیر بیچتے ہیں ، لوگ سوال پوچھیں کہ کیا یہ ابھی ہو رہا ہے، یہ پچھلے30سال سے ہورہا ہے،اس میں سب کو پیسہ ملتا ہے اور قیادت کو پیسہ ملتا ہے ، مجھے کیسے پتہ ہے کیونکہ مجھے خود پیسے کی آفر آئی ہوئی ہے۔ پانچ سال پہلے جب ہمارا سینیٹ کا الیکشن تھا انہوں نے مجھے پیسے کی پیشکش کی ۔ جب سیاسی قیادت کو پتہ ہے کہ پیسہ چلتا ہے تو انہوں نے کیوں تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی، کیونکہ یہ خود اس میں سے پیسے بناتے ہیں۔ یہ ساری جمہوریت کی نفی ہے، یہ کون سی جمہوریت ہے کہ آپ پیسے دے کر سینیٹر بن جائیں اور یہ کون سے ارکان پارلیمنٹ ہیں جو پیسے لے کر اپنے ووٹ بیچیں تو یہ تو جمہوریت کی نفی ہو گئی۔یہ سوال پوچھنا کہ میرے پاس ویڈیو تھی، میرے پاس اگر ویڈیو ہوتی تو جو ہم نے20لوگ نکالے تھے ان میں سے دو نے تو مجھ پر کیس کئے ہوئے تھے تو عدالت میں کیوں نہ یہ ویڈیو لے جاتا اگر میرے پاس ہوتی، ہمارا وکیل جو دو سال سے عدالت جارہا ہے وہ ویڈیو دکھاتا کیس ہی ختم ہو جاتا اگر میرے پاس یہ پہلے ہوتی۔ سوال یہ نہیں ہے، ان لوگوں نے جو چور اپنے آپ کو سیاستدان کہتے ہیں ، یہ جو پی ڈی ایم کے اندر اپنی چوری بچانے کے  لئے یونین بنی ہوئی ہے ، ان ساروں سے یہ سوال پوچھنا چاہیئے کہ 30سال سے آپ کی جماعتیں حکومت میں اور میں تو بعد میں آیا ہوں، کیوں نہیں آپ نے اس کو روکنے کی کوشش کی۔ ایک سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے ایک آدمی نے آفر نہیں کی بلکہ کئی لوگوں نے آفرز بھجوائیں کہ اگر آپ ہمیں سینیٹ کی سیٹ دے دیں تو ہم اتنا پیسہ دینے کے لئے تیار ہیں، آپ شوکت خانم میں دے دیں، صرف مجھے ہی آفرز نہیں ملتیں بلکہ ہمارے پارلیمانی بورڈ میں موجود دیگر لوگوں کو بھی لوگ پیسے  آفرز کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بلوچستان میں ایک سینیٹر بننے کا ریٹ 50سے70کروڑروپے جارہا ہے، وہ جو اتنا پیسہ خرچ کرے گا وہ حاتم طائی تو نہیں ہے وہ آکر پیسہ بنائے گا، وہ پیسہ کیسے بنائے گا وہ پاکستانی عوام کی کھال کھینچے گا اور پاکستان کا خون چوسے گا۔ کوئی50یا70کروڑ روپے ایسے ہی تو خرچ نہیں کرتا۔ ان کا کہنا تھاکہ دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت اور مولانا فضل الرحمان سب کو پتہ ہے کہ پیسہ چلتاہے اور مولانا فضل الرحمان نے تو سب سے زیادہ پیسہ بنایا ہے، اس کی پارٹی میں تو وہ سینیٹر بن گئے جو جے یو آئی میں ہی نہیں تھے، وہ باہر سے آکر سینیٹر بن جاتے ہیں کیسے بنتے ہیں۔ اس وقت سے اہم چیز کیا ہے سینیٹ الیکشن آرہا ہے ، جب ہمیں پتہ ہے کہ سیاستدانوں کی پیسے کی پوری منڈی لگی ہوئی ہے ، ریٹ طے ہورہے ہیں تو کیا ہم نے اسی نظام کے تحت الیکشن کروانا ہے ، جب ان دونوں جماعتوں  نے سی اوڈی میں واضح کہا تھا کہ اوپن بیلٹ ہوناچاہیئے ، پچھلی بار (ن)لیگ نے کہا کہ اوپن بیلٹ ہونا چاہیئے تو میں نے تائید کی کہ ہاں جی اوپن بیلٹ ہونا چاہیئے ، آج یہ کیوں پیچھے ہٹ گئے ہیں، میں تو یہ سوال پوچھ رہا ہوں۔ ایشو یہ ہے کہ کیا سینیٹ الیکشن ہم نے اسی کرپٹ سسٹم کے زریعہ لڑنا ہے یا شفافیت لے کر آنی ہے۔ ایک سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے، جب ڈالر کے مقابلہ میں  روپیہ گرتا ہے تو مہنگائی بڑھنی ہوتی ہے کیونکہ ساری چیزیں جو باہر سے آتی ہیں مہنگی ہو جاتی ہیں ، جب پیپلز پارٹی2008میں آئی تواس وقت 25فیصد  روپیہ گرا اور 25فیصد تک مہنگائی چلی گئی،2008-09میں آج کے مقابلہ میں بہت زیادہ مہنگائی ہوئی کیونکہ روپیہ 25فیصد گرا، ہماری باری 24.5فیصد روپیہ گرا اور وہ روپیہ کیوں گرتا ہے جب آپ کی امپورٹس اوپر چلی جاتی ہیں اور ایکسپورٹس نیچے چلی جاتی ہیں اور ڈالرز ملک سے زیادہ باہر جارہے ہوتے ہیں بجائے اندر آنے کے تو روپیہ گر جاتا ہے ، جب روپیہ نیچے گرتا ہے تو تیل مہنگا، اس کا مطلب ساری ٹرانسپورٹ مہنگی ، اس کا مطلب بجلی مہنگی کیونکہ آدھی بجلی تیل سے بنتی ہے ، آدھی گیس باہر سے امپورٹ ہوتی ہے وہ مہنگی ہوجاتی ہے اس کے بعد دالیں مہنگی کیونکہ70فیصد دالیں باہر سے آتی ہیں ، گھی باہر سے آتا ہے وہ مہنگا، اور جب باہر کی قیمتیں بڑھتی ہیں پھر مہنگی، پیٹرول کی قیمت بڑھی پھر مہنگی۔ اللہ کرے ہماری ایکسپورٹس بڑھنی شروع ہوجائیں جو بڑھنی شروع ہو گئی ہیں اور ہم امپور ٹس سے زیادہ ایکسپورٹس شروع کردیں تو ہمارا روپیہ مضبوط ہو گا اور مہنگائی کم ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسری وجہ یہ تھی کہ ہمارے ہاں دوبارشیں موسم کی تبدیلی کی وجہ سے غلط وقت پر آگئیں اور جو ہماری گندم اچھی خاصی ہونی تھی وہ ہماری بارانی گندم کم ہوئی اور جب اس کی پیداوار کم ہوئی تو پھر وہ امپورٹ کرنی پڑ گئی۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارے اراکین جارہے ہیں یانہیں جارہے یہ بڑی چیز نہیں ہے ، میں پانچ سال سے اوپن بیلٹ کے لئے لگا ہوا ہوں، جب (ن)لیگ نے کہا کہ اوپن بیلٹ ہونا چاہیئے تب میں نے اس کی تائید کی،30سال سے سب کو پتہ کہ سینیٹ کے ووٹ بکتے ہیں ، میرا سوال یہ ہے کہ انہوں نے کیوں اسے تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ کہنا کہ ہمارے اراکین جارہے ہیں یا نہیں جارہے، یہ حکومت کے لئے زیادہ آسان ہے ، ہماری جتنی سیٹیں ہیں ہم اس سے زیادہ لے سکتے ہیں کیونکہ حکومت کے پاس پاور ہوتی ہے ، اس لئے حکومت میں آکر کوئی بدلتا نہیں ہے، باہر کہتا ہے حکومت میں آکر نہیں کہتا، ہم حکومت میں آکر کہہ رہے ہیں کہ اوپن بیلٹ ہوناچاہیئے ، میں آج کہتا ہوں کہ یہی لوگ روئیں گے کہ تحریک انصاف کی سیٹوں سے زیادہ ہمیں سینیٹرز  مل گئے، ابھی میں کہہ رہا ہوں ، کیونکہ ہم زیادہ سیٹیں لے سکتے ہیں۔ ہم ملک میں تبدیلی لے کرآرہے ہیں، جب ملک میں کرپشن اوپر سے شروع ہوتی ہے، جب آپ کی سیاسی قیادت کرپٹ ہو گی تو کیا تھانیدار اور پٹواری ٹھیک ہو جائے گا ۔ ایک سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ کرکٹ کے لئے مجھے زیادہ تائم نہیں ملتا اور سچ یہ ہے کہ میں نے پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان ہونے والے میچ بھی نہیں دیکھے، مبارک تو ٹیم کو دیتا ہوں لیکن میچ دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ کا بنیادی ڈھانچہ ٹھیک کرلیا ہے ، میں بڑی دیر سے کہہ رہا تھا کہ علاقائی کرکٹ ہونی چاہیئے یہ ہو گیاہے ، اب اس میں سے وہ ٹیمیں بنیں گی جو دنیا کی ٹیموں کو شکست دیں گی، ابھی تک ہم اچھی ٹیم ہیں لیکن ہم دنیا کو ہرانے والی ٹیم نہیں بن سکے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا کرکٹ کا بنیادی ڈھانچہ غلط تھا، بھارت نے اپنا بنیادی ڈھانچہ ٹھیک کر لیا ہے اور بھارت دنیا کی بہترین ٹیم بنتی جارہی ہے ، ہمارا اسٹرکچر ٹھیک نہیں ہے اور ہمارے ہاں بھارت کے مقابلہ میں بہت زیادہ  ٹیلنٹ ہے  لیکن ہمیں جس طرح کی کارکردگی دکھانی چاہیئے وہ ہم نہیں دکھا سکتے تو اصل چیز یہ ہے کہ جو بنیادی ڈھانچہ ہے اسے ٹھیک کریں اور یہ ٹھیک کر لیا اور اب اس کو پروان چڑھائیں گے اور ٹیلنٹ پالش ہونے میں دو، تین سال لگتے ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن