مملکت خداداد پاکستان میں حکومت بنانے کی خواہش تو ہر سیاسی جماعت میں ہوتی ہے لیکن اسے خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی کہ پاکستان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ پنجاب کرتا ہے۔ پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے والا ہی وفاق پر حکمران بن پاتا ہے اس لیے پنجاب کی گورننس ہرسیاسی جماعت کیلئے اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے جب آخری عام انتخابات میں فتح حاصل کی تو سب سے اہم سوال تھا کہ پنجاب کا وزیراعلیٰ کون ہوگا؟بہت سارے نام تھے جو تجویز ہوئے اور زیر بحث رہے لیکن وزیراعظم عمران خان نے جنوبی پنجاب کے علاقے سے سردار عثمان بزدار کا انتخاب کرکے سب کو چونکا دیا۔ بہت سارے سیاسی مبصرین کے خیال میں یہ ایک بہت بڑا جوا ٗتھا۔
سردار عثمان بزدار کی بطور وزیراعلیٰ پنجاب اننگز جاری ہے اور حکومت اپنے چوتھے سال میں داخل ہوچکی ہے۔ انکی کارکردگی کیسی رہی اس بات کا تعین آئندہ عام انتخابات کے نتائج کرینگے۔ پنجاب میں گورننس کے حوالے سے اگر سابق وزرائے اعلیٰ کے ادوار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم پڑیگا کہ منظور وٹو‘ شہبازشریف اور چوہدری پرویز الٰہی کی شخصیات میں فرق جو بھی رہا ہو‘ ان کا صوبے میں معاملات چلانے کے حوالے سے بیورو کریسی کا انتخاب اور کنٹرول مخصوص نتائج کے حصول کا باعث بنا۔وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کے دور میں بیورو کریسی کے حوالے سے تسلسل کا فقدان رہا اور کئی چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس بدلے جاچکے ہیں جس کی وجہ سے صوبائی بیوروکریسی کا عمومی مورال گرا ہوا رہا اور صوبائی حکومت کو بیشتر حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ یہ تنقید مثبت بھی رہی اور منفی بھی کہ وزیراعلیٰ کے سیاسی مخالفین بلا تخصیص ہر جماعت میں موجود تھے اور پنجابی کہاوت ’’آٹا گندھی ہلدی کیوں اے‘‘ کے مصداق اچھی باتیں اور کام بھی ہدف بنے۔ ان سے پہلے کاموں کا کریڈٹ لینے کیلئے صوبائی محکمہ اطلاعات کا بے دریغ استعمال شخصیات کی ذاتی پروموشن کیلئے کیا جاتا۔ آٹھ آنے کے کام کی شہرت کیلئے ایک سے دو روپے خرچ عام چلن تھا۔
عثمان بزدار کی شخصیت میں خودنمائی کا پہلو نہ ہونے کا انہیں نقصان پہنچتا رہا ہے کیونکہ یہ سارے معاملات بہت سے دوسرے لوگوں کے کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ جس شخصیت یا گروہ کے مفادات پورے نہیں ہوتے تھے وہ انہیں نشانے پر رکھ لیتا تھا۔
ان تمام باتوں میں پلوں کے نیچے سے بے شمار پانی گزر چکا ہے اور اب ریاض بٹالوی کے ڈرامے کے ایک کردار کے بقول ’’ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت‘‘ تین سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور اب سمجھئے کھیل آخری اوورز میں داخل ہوگیا ہے۔ اس وقت خوش قسمتی سے وزیراعلیٰ کے پاس اچھے نیک نام لوگوں کی ٹیم بھی بن گئی ہے۔ چیف سیکرٹری کیلئے انکے پاس کامران افضل جیسا نام ہے جو اپنی سابق کارکردگی کے باعث قابل اعتماد افسر سمجھا جاتا ہے۔ انسپکٹر جنرل پولیس رائو سردار علی گریڈ بائیس کے سینئر افسر ہیں۔ یہ دونوں صاحبان اپنے کیرئیر کے عروج پر ہیں اور کسی قسم کا سیاسی دباو خاطر میں نہ لانے کی پوزیشن میں ہیں۔ آئی جی پنجاب کو کسی انعام‘ گریڈ یا پوسٹنگ کے ذریعے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ کامران افضل اپنی ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں۔ انہیں بھی یقینی طورپر خواہش ہوگی کہ وہ اچھے طورپر اپنے کیرئیر کا اختتام کریں۔ کچھ ایسے کام کر جائیں کہ جس کے بعد لوگ انہیں پنجاب کے اچھے‘ قابل افسر کے طور پر یاد کریں۔
اطلاعات کے شعبہ میں بھی ٹیم بن گئی ہے‘ حسان خاور جنہیں ترجمانی کا فریضہ سونپا گیا ہے پڑھے لکھے شخص ہیں اور اطلاعات کیمطابق سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے سول سروس خود سے جوائن نہ کرنے کا فیصلہ کیا ‘ تاہم مدلل گفتگو کے ذریعے لوگوں کو قائل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور کوشش بھی کرتے ہیں کہ وہ حقائق اور سیاسی بیانیے کو ساتھ لیکر چل سکیں۔ سیکرٹری اطلاعات راجہ جہانگیر انور اپنے شعبے کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں اور ہر قسم کی صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے ہنر سے آشنا ہیں۔
خاتون افسر روبینہ افضل صاحبہ جنہیں ڈائریکٹر جنرل شعبہ تعلقات عامہ پنجاب کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ صحافت اور صحافی ان کیلئے گھر کی بات ہے کہ وہ خود بھی صحافی رہ چکی ہیں اورمیزکے دونوں اطراف کا تجربہ رکھتی ہیں۔ حال ہی میں فرخ شاہ جیسے تجربہ کار کھلاڑی کا اس ٹیم میں اضافہ ہوا ہے تو ایسے میں ٹیم کے کپتان سردار عثمان بزدار کو چاہیے کہ وہ اپنے تمام کھلاڑیوں کو اعتماد دیں‘ اب انکے پاس مزید تجربات کا وقت نہیں ہے اسی ٹیم کے ہر فرد کو ناصرف اعتماد دیں بلکہ انہیں ٹارگٹ بتائیں اور ان سے نتائج لیں یہ تمام لوگ جن کا اوپر ذکر کیا ہے انکے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم کروائیں تاکہ وہ سب مل کر ایک مشترکہ مقصد کے حصول کیلئے پوری توانائی سے کام کرسکیں۔ کسی کو ایک دوسرے کے حوالے سے تحفظات ہیں یا کسی کو عدم تحفظ ہے تو وہ دور کیے جانے چاہئیں کہ اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے اور پاکستان کے عوام کا مستقبل اگلے کچھ عرصے کی کارکردگی پر ٹکا ہوا ہے۔حکمران جماعت کیلئے مہنگائی سب سے بڑا مسئلہ ہے ‘ اسکے بعد زراعت سے جڑے لوگوں کے معاملات ہیں۔ امن وامان کا قیام اور قانون کا نفاذ ہی عوام کے تمام مسائل کا حل ہے۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے چیف سیکرٹری کو خصوصی اختیارات کے ساتھ انقلابی اقدام کی اجازت دینا ہوگی۔
وہ چونکہ وفاق میں پریشر کے ماحول میں ڈیوٹی کرچکے ہیں تو کام کا دبائو بآسانی برداشت کر سکیں گے یوں بھی انہوں نے سائلین اور افسران کیلئے روزانہ دو گھنٹے الگ الگ مختص کر رکھے ہیںوہ عوامی نبض جانتے ہیں۔ سیکرٹری زراعت کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر رپورٹس کا تبادلہ درکار ہے۔ سیکرٹری زراعت کے پاس بھی کارکردگی دکھانے کا بہت اچھا موقع ہے۔ سیکرٹری داخلہ اور آئی جی پنجاب کے پاس ملک کے سب سے بڑے آبادی والے صوبے میں امن اور قانون کے معاملات ہیں ہر شخص کی زندگی اور املاک کا تحفظ ان کی ذمہ داری ہے۔ بہت سی امیدیں اور توقعات ہیں ان میں سے کچھ ٹوٹ چکی ہیں لوگوں کا اعتماد بحال کریں انکی امیدیں پوری نہیں کرسکتے تو ٹوٹنے بھی مت دیں۔
خدمت خلق کا راستہ ہی آپ کو نیک نامی کی یقین دہانی کراسکتا ہے۔ روپیہ‘ پیسہ‘ طاقت اور اختیار جس فراوانی سے عطا کیا جاتا ہے اس کا حساب بھی اتنی سختی سے لیا جائیگا۔حوصلہ افزائی کریں اور عوام کی زندگی میں آسانیاں لائیں آپ کی زندگی خود بخود آسان ہو جائے گی‘ آپ ایک مرتبہ کرکے تو دیکھیں۔