بنگلور+اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+خصوصی نامہ نگار) بھارتی ریاست کرناٹک میں باحجاب طالبات کے کالجوں اور سکولوں میں داخلے پر پابندی کے کیس کی سماعت کرنے والے سنگل بنچ سے طالبات کی داد رسی نہیں ہوئی۔ بنچ نے معاملہ سماعت کیلئے لارجر بنچ کو بھیج دیا۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے جج نے کہا کہ حجاب کے معاملے پر عارضی ریلیف کا معاملہ بھی لارجر بینچ دیکھے گا۔ دوسری جانب کرناٹک کے علاوہ بھارت کی دوسری ریاستوں میں بھی باحجاب طالبات کے تعلیمی اداروں میں داخلے پر پابندی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ کانگریس رہنما پریانکا گاندھی نے کہا ہے کہ حجاب، گھونگٹ یا جینز، خواتین کو اپنی مرضی کے کپڑے پہننے کا اختیار حاصل ہے جو آئین میں ہے۔ ممبئی میں باحجاب خواتین نے سماج وادی پارٹی کی جانب سے حجاب پر پابندی کے خلاف دستخطی مہم میں حصہ لیا۔ مدھیہ پردیش میں باحجاب طالبات کو سکول میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ مدھیہ پردیش کے انتہا پسند وزیر تعلیم حجاب کیخلاف زہر اگلنے لگے۔ وزیر تعلیم اندر سنگھ پرمرکا کہنا ہے کہ حجاب کو سکول یونیفارم کا حصہ نہیں ہونا چاہئے، جسے حجاب پہننا ہے وہ اپنے گھر میں پہنے۔ دریں اثناء ہندو انتہا پسندوں کے جتھے کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہونے والی طالبہ کو سوشل میڈیا صارفین نے شیرنی قرار دے دیا۔ مسکان ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ مسکان اور ہیش ٹیگ اللہ اکبر سے ٹرینڈ کر رہی ہیں۔ جہاں مسکان کو سوشل میڈیا صارفین شاندار خراج تحسین پیش کر رہے ہیں وہیں پاکستان کی سیاسی شخصیات اور وزراء نے بھی ان کی دلیری کو سراہا۔ وزیر مملکت زرتاج گل نے بھی ایک ایڈیٹ شدہ تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ یہی وہ صورتحال ہے جس سے متعلق وزیراعظم عمران خان نے مغرب کو خبردار کیا تھا۔ کولکتہ میں مسلمان طلبہ سڑکوں پر نکل آئے اور ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ بنگلور میں تعلیمی اداروں کے قریب مظاہروں پر دو ہفتے کیلئے پابندی لگا دی گئی ہے۔ ادھر مسکان نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے ہندو دوستوں نے ان کی مدد کی۔ بھارتی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے مسکان نے کہا کہ میں تنہا ان کا سامنا کرنے کیلئے پریشان نہیں تھی اور اگر مستقبل میں بھی ایسا واقعہ پیش آیا تو میں اپنے حجاب پہننے کے حق کیلئے لڑتی رہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ میں کلاس میں صرف حجاب پہنتی تھی جبکہ برقع اتار دیتی تھی کیونکہ حجاب ہمارے دین کا ایک حصہ ہے۔ پرنسپل نے کبھی کچھ نہیں کہا اور نہ ہی پرنسپل نے ہمیں برقع نہ پہننے کا مشورہ دیا۔ مسکان نے بتایا کہ میرے ہندو دوستوں نے میرا ساتھ دیا۔ میں خود کو محفوظ محسوس کر رہی ہوں۔ ہر کوئی ہمیں کہہ رہا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ بھارتی ڈراموں کے مشہور اداکار اور بگ باس کے سابق کھلاڑی علی گونی نے بھی ہندو انتہا پسندوں کے سامنے ڈٹ جانے والی مسلم باحجاب طالبہ کو ’’شیرنی‘‘ قرار دے دیا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے مسکان کی ٹوئٹر پروفائل پر ڈسپلے پکچر لگا لی۔ مریم نواز نے انتہا پسند ہندوؤں کے سامنے ڈٹ جانے والی بھارتی باحجاب طالبہ سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے بھارتی ریاست کرناٹک میں پیش آنے والے واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری تشویش اب مقبوضہ جموں و کشمیر تک محدود نہیں رہی،کرناٹک کا واقعہ اس کا واضح ثبوت ہے۔ بدھ کو بی جے پی سرکار کی ناروا پالیسیوں کے باعث خطے کے امن کو درپیش خطرات کے حوالے سے ایک بیان میں وزیر خارجہ نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور مظالم کی جانب ہم عالمی برادری کی توجہ مسلسل مبذول کرواتے آ رہے ہیں۔ جبکہ وزیر اعظم عمران خان بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہمیں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان پر شدید تشویش ہے۔دریں اثناء اسلام آباد میں تعینات بھارتی ناظم الامور کو وزارت امور خارجہ میں طلب کیا گیا اور بھارتی ریاست کرناٹک میں مسلمان طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی کے بہیمانہ اقدام کی حکومت پاکستان کی جانب سے شدید مذمت کرتے ہوئے گہری تشویش سے آگاہ کیا گیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق بھارتی ناظم الامور پر زور دیا گیا کہ وہ کرناٹک میں ’آر۔ ایس۔ ایس‘، ’بی۔جے۔پی‘ کی مشترکہ سرپرستی میں جاری حجاب مخالف مہم پر پاکستان کی تشویش سے بھارتی حکومت کو آگاہ کریں۔ یہ مہم اکثریت کی حکمرانی اور ایک بڑے طبقے کو معاشرے سے خارج کرنے کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ جس کا مقصد مسلمان خواتین کے ساتھ غیر انسانی طرز عمل اختیار کرتے ہوئے انہیں مثبت سرگرمیوں میں شرکت سے روکنا اور بدنام کرنا ہے۔