تقسیم ہند کے بعد سے کوئی ایک سال ایسا نہیں گزرا جب نام نہاد سیکولر ملک بھارت میں مسلمانوں کے خلاف فسادات برپا نہ کیے گئے ہوں مسلمانوں کی املاک کو لوٹ مار کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو، ان کے گھر نہ جلائے گئے ہوں یامسلمانوں کا قتل عام اور مسلمان خواتین کی عزتیں پامال نہ کی گئی ہوں۔بھارتی میڈیا کا کمال یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی نسل کشی پر مبنی اس طرح کے واقعات کو ہندو مسلم فسادات کا رنگ دے کر ہمیشہ اس کوشش میں رہا ہے کہ کسی طرح مسلمان اقلیت پر ٹوٹنے والی ہر قیامت کو اقلیت اور اکثریت کے درمیان فساد بتا کر اس تاثر کی نفی کی جاسکے کہ اقلیتیں بھارت میں غیر محفوظ ہیں۔ تاہم اس طرح کے مسلم کش فسادات میں کچھ واقعات ایسے بھی ہیں جو ہندو فاشزم کو پوری دنیا میں بے نقاب کرنے کا سبب بنے۔انہی میں سے ایک فروری 2002 ءمیں گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی اور اسکے دست راست اور امیت شاہ کی طرف سے بھارت میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے راج کی راہ ہموار کرنے کےلئے مسلمانوں کا اجتماعی قتل عام کاواقعہ ہے جس نے نہ صرف بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کی مسلمان دشمنی کو بے نقاب کیا بلکہ پوری دنیاکو دہلا کے رکھ دیا۔ 27 فروری 2002 ءسے لے کر 3 جنوری تک گجرات میںریاستی پولیس کی سرپرستی میں جس طرح مسلمانوں کو منظم انداز سے قتل کیا گیا، ان کے گھر جلائے گئے ،خواتین جن میں سات برس کی کم عمر بچی سے لے کر ستر برس کی بوڑھی خواتین شامل تھیں انہیں گلیوں اور سڑکوں پر کھلے عام جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعدان پر تیل چھڑک کر آگ لگا دی گئی ۔ شیر خوار بچوں کو ترشول و بھالوں میں پرو کر ہوا میں اچھالا گیا۔ یہاں تک کہ سرکاری عمارتوں اور تعلیمی اداروں میں پناہ لینے والے مسلمانوں پر رات کے اندھیرے میں حملہ آور ہوکر سب کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ حالانکہ ان تعلیمی اداروں کو گجرات انتظامیہ اور پولیس کی طرف سے حفاظتی کیمپ قرار دیا گیاتھا۔ لیکن بعد میں انکشاف ہوا کہ یہ سب مسلمانوں کو ایک جگہ گھیر کر قتل کرنے کیلئے تیار کیے گئے منصوبے کا حصہ تھا۔ بھارتی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق گجرات میں احمد آباد کے علاقے چمن پورہ میں بوائز سیکنڈری سکول سے یکم جنوری 2002 ءکو مسلمانوں کی 100 سے زیادہ کٹی پھٹی اور جلی ہوئی لاشیں ملیں۔
بھارتی و مغربی اخبارات میں گجرات مسلم کش فسادات کے حوالے سے شائع ہونے والی یہی خبریں ہی تھیں جن کی وجہ سے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو امریکی حکومت نے دہشت گرد اور قصائی قرار دےکر اسکے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا دی۔ 1992 ءمیں بابری مسجد کی شہادت اور اسکے خلاف مسلمانوں کے بھر پور احتجاج کو ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے ناکام بنانے کیلئے مسلمانوں پر کیے گئے حملوں کے بعد جس میں 200 سے زیادہ مسلمان شہید کر دیئے گئے۔ فروری 2002 ءمیں گجرات میں مسلمانوں کے خون سے کھیلی گئی ہولی ایسا واقعہ تھا جس نے نا صرف ہندو انتہاپسندی کی جڑیں بھارتی نظام میں مزید گہری کردیں بلکہ بھارت میں اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کا اظہار انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کی ضمانت بن گئے۔ گجرات مسلم کش فسادات میں حیران کن لمحات وہ تھے جب مسلمانوں کے بیہمانہ قتل عام پر قابو پانے کیلئے بھارت کے معروف مسلمان سیاستدان اور کانگریس جماعت کی طرف سے ماضی میں لوک سبھا کے رکن منتخب ہونےوالے سید احسان جعفری نے مدد کیلئے جب گجرات چھاﺅنی میں اپنے قریبی دوستوں پر مشتمل بھارتی فوج کے اعلیٰ افسران سے رابطہ کیاتو انہوں نے یہ کہتے ہوئے معذرت کرلی کہ ان کے پاس گجرات چھاﺅنی سے سات کلو میٹر کے فاصلے پر فساد زدہ گجرات تک فوجی جوانوں کو پہنچانے کیلئے ٹرک دستیاب نہیں۔ اس وقت درجنوں مسلمان مرد و خواتین اور بچے احسان جعفری کی گلبرگ سوسائٹی میں واقع حویلی میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ ہندو احسان جعفری کو دھمکیاں دے رہے تھے کہ پناہ گزین مسلمانوں کو فوری طور پر گھر سے نکالو یا پھر خود بھی مرنے کےلئے تیار ہو جاﺅ۔ اسے امید تھی کہ بھارتی فوج مسلمانوں کی زندگی بچانے کیلئے ضرور مدد کو آئیگی لیکن افسوس 28 فروری کو ہندو انتہا پسندوں نے احسان جعفری کے گھر میں داخل ہو کر وہاں پناہ لینے والے تمام مسلمانوں کو قتل کرنے کے بعد جس بے دردی سے زندہ حالت میں احسان جعفری کے ٹکڑے کیے اس نے ہلاکو خان کی بربریت کو بھی مات دیدی ۔کمال تو یہ ہے کہ گجرات میں مسلم کش فسادات برپا کرنے کے جرم میں آج تک بھارت میں کسی قاتل کو سزا نہیں ملی۔
اور اب 2 دہائیوں بعد اچانک بی بی سی نے گجرات مسلم کش فسادات سے متعلق گزشتہ ماہ 17 جنوری 2023 ءکو ایک دستاویزی فلم جاری کرکے پورے بھارت میں نہ تھمنے والا طوفان برپا کر رکھا ہے۔ بی بی سی کی مذکورہ دستاویزی فلم برطانوی حکومت کی طرف سے مرتب کی گئی ان رپورٹس کی بنیاد پر تیار کی گئی جس میں نریندر مودی کو گجرات میں مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام کا ذمہ دارقرار دیا گیا تھا۔ دستاویزی فلم میں گجرات مسلم کش فسادات کے کچھ ایسے واقعات کا بھی احاطہ کیا گیا جو تاحال میڈیا سے پوشیدہ تھے۔ اس دستاویزی فلم کا اہم حصہ2001 ءسے 2006 ءتک برطانیہ میں وزارت خارجہ کے عہدہ پر تعینات رہنے والے سابق وزیر خارجہ جیک سٹرا کا بی بی سی کو دیا گیا انٹرویو ہے۔ جس میں اس نے دستاویزی فلم میں پیش کیے گئے حقائق کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ فروری 2002 ءمیں گجرات میں پیش آنے والے تمام واقعات دہلی میں برطانوی ہائی کمیشن کی طرف سے لندن میں برطانوی وزارت خارجہ کے دفتر کو تحریری طور پر بھیجے گئے تھے۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق سامنے لائے جانے والے واقعات سے کہیں زیادہ سنگین صورتحال تھی جس سے فروری اور مارچ 2002 ءمیں گجرات کے مسلمان دوچار ہوئے۔برطانوی تحقیقاتی رپورٹ میں نریندر مودی کو گجرات فسادات کا ذمہ دار قرار دیا گیا اور لکھا گیا کہ یہ فسادات نہیں بلکہ مسلمانوں کی منظم نسل کشی تھی۔ بدقسمتی سے برطانوی سرکار نے تو اپنی خصوصی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لاکر نریندری مودی کا چہرہ بے نقاب کردیا ہے لیکن لگتا ہے پاکستان کے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کیلئے برطانوی رپورٹ کی حیثیت معمول کی خبر سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔ اگر اس طرح کی کوئی رپورٹ پاکستان کیخلاف سامنے آتی تو بھارت سرکار اور بھارتی میڈیا کا ردعمل کیا ہوتا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔