1927ءمیں علامہ محمداقبال پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کا انتخاب لڑرہے تھے۔انتخابی مہم زوروں پرتھی، زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اس انتخابی مہم میں گرم جوشی سے شریک تھے۔اس ہجوم میں امرتسر کے نواحی گاﺅں سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان حافظ عبدالرحمن بھی شامل تھا۔ یہ انتخابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتاتھا ،عبدالرحمن ان دنوں اسلامیہ کالج لاہور میں بی اے کا طالب علم تھا۔ ایک دن جلوس لاہورکی تاریخی مسجد وزیرخان کے پاس سے گزر رہا تھا کہ مسجدسے مغرب کی اذان کی آواز آئی،جلوس کے شرکا نے نماز کی ادائیگی کیلئے وہیں صفیں باندھ لیں، اتفاق سے نوجوان عبدالرحمن اگلی صفوں میں موجود تھا، ایک بزرگ نے اسے امامت کیلئے کہا،جب نماز ہوگئی تو اسکے کانوں میں ایک آواز آئی ۔”بھائی نوجوان! مبارک ہوآج علامہ اقبال جیسی شخصیت نے تمھاری امامت میں نماز اداکی ہے۔“یہ واقعی ایک اعزاز تھا،اور نوجوان عبدالرحمن تمام عمر اس سعادت پرفخرکرتا رہا۔ بعدمیں اس نے ”ایک یادگار واقعہ“کے عنوان سے اردو ڈائجسٹ میں اسکی تفصیلی روداد بھی لکھی۔ قیام پاکستان کے بعد حافظ قاضی عبدالرحمن ہجرت کرکے ضلع منٹگمری (اب ساہیوال)کے ایک چھوٹے سے شہرعارفوالا میں آگیا، ضلع کے مختلف سکولوں میں درس وتدریس کے امور انجام دیتا رہا۔قاضی عبدالرحمن کی ملازمت کا طویل حصہ ٹاﺅن کمیٹی عارفوالا کے سکول میں بطور ہیڈماسٹر گزرا۔ 1968ءمیں وہ یہاں سے ملازمتی امور سے سبک دوش ہوا۔یہ کہانی ایک ایسی شخصیت کی ہے جس کی ادبی نشستیں مولانا ظفرعلی خاں،صوفی غلام مصطفی تبسم،ایم ڈی تاثیر اور عابدعلی عابد جیسے لوگوں کے ساتھ ہوتی تھیں۔قاضی صاحب کو ایک اور اعزاز بھی حاصل ہوا۔ یہ1960ءکا سال تھا،صدرایوب کے مارشل لا کے زمانے میں وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں تجویز پیش کی گئی کہ کراچی کی آبادی میں بے تحاشا اضافے ، وسائل کی کمی اور ناسازگار موسم کے سبب سے پاکستان کا دارالحکومت تبدیل کیاجانا چاہیے۔ اس سے کافی عرصہ پہلے اس سلسلے میں کام کا آغازہوچکاتھا۔21 جنوری 1959ءمیں ایوب حکومت نے ایک حکومتی کمیشن قائم کیا جس کے سربراہ چیف آف سٹاف میجرجنرل یحییٰ خان تھے۔اس کمیشن کی ذمہ داری یہ تھی کہ نئے دارالحکومت کیلئے مقام کا تعین کرے۔واضح ہوکہ جدید دنیامیں اقتدار کے مراکزمیں تبدیلی کی یہ روایت روس ، برازیل، تنزانیا، آئیوری کوسٹ، نائیجیریا ،قازقستان، اور برما جیسے ممالک میں موجود ہے۔کمیشن نے12 جون 1959ءکو کمیشن نے راولپنڈی کے ساتھ ایک نیا شہر آباد کرنے کی تجویزدی،جسے کابینہ کے اجلاس میں منظور کرلیاگیا۔انھی دنوں مختلف حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھا کہ اس نئے دارالحکومت کا نام کیا ہوگا۔ اخبارات ورسائل میں تجاویز پیش کرنے کی مہم چلائی گئی۔مجیدنظامی مرحوم کے زیرادارت شائع ہونے والے نوائے وقت کے ہفت روزہ جریدے ”قندیل“ میں بھی ایک مقابلے کا اعلان کیا گیا۔معروف محقق عقیل عباس جعفری کے مطابق ہفت روزہ” قندیل “ میں مختلف حلقوں کی طرف سے ایوب آباد، ایوب پور، ایوب نگر، الحمرا، اقبال پوٹھوہار، پارس، پاک ٹا¶ن، پاک مرکز، پاک نگر، جناح، جناح آباد، جناح برگ، جناح پور، جنت نشان، خانہ آباد، دارالامن، دارالامان، دارالسلام، دارالجمہور، دارالفلاح، حسین آباد، ریاض، عادل نگر، فردوس،گلزار، گلستان، مسرت آباد، ملت آباد، منصورہ، ڈیرہ ایوب، عسکریہ، قائداعظم آباد، قائد آباد، کہکشاں، مدینہ پاکستان، استقلال، الجناح، پاک زار، دارالایوب اور نیا کراچی جیسے نام تجویز کیے گئے۔ ایک طویل بحث ومباحثے کے بعد قاضی عبدالرحمن کا تجویز کردہ نام اسلام آباد منظور کرلیا گیا،اس عہدکے وزیراطلاعات ونشریات ذوالفقارعلی بھٹو نے وفاقی کابینہ کے4 فروری 1960ءکے اجلاس میں باقاعدہ اسکی منظوری کااعلان کیا۔فوجی حکومت نے قاضی عبدالرحمن کو انعام کے طورپر اسلام آبادمیں ایک کنال کا پلاٹ دینے کا وعدہ کیا۔حکومت کی طرف سے انھیں باقاعدہ طور پرایک سرکاری خط کے ذریعے اطلاع دی گئی لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفاہوگیا۔یہ وعدہ خلافی کی ایک داستان ہے جس کے بیان کرنے کایہ محل نہیں۔ یوں بھی قاضی صاحب کیلئے یہ چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی تھیں۔قاضی عبدالرحمن ایک بہت عمدہ شاعربھی تھے۔انھوں نے مذہبی اورملی شاعری میں ایک الگ شناخت بنائی۔انکی نعتیہ شاعری کامجموعہ ”ہوائے طیبہ“ کے عنوان سے1981 ءمیں شائع ہوا۔انکی نعت شریف کے اشعار دیکھیے:
نگہ بلند رہی ان کی کیف اور کم سے
ترے غلام بڑھے مرتبہ میں ہر جم سے
بنایا خاک نشینوں کو تو نے سِدرہ شناس
ثریٰ کو شان ثریا ملی ترے دم سے
جہاں میں آنا ترا وجہ صد سکوں ٹھہرا
ملی نجات زمانے کو حزن اور غم سے
قاضی عبدالرحمن برصغیر پاک وہند کے مسلم مشاہیر سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ شاعری میں وہ باقاعدہ طور پر مولانا ظفرعلی خاں کے شاگرد تھے۔25 اپریل 1990 ءکو یہ انامست ہستی ابدی نیند سوگئی۔قاضی عبدالرحمن کی وفات کے بعدانکی خدمات کے اعتراف میں شہری حلقوں کی طرف سے انکے مکان سے متصل سڑک کو ان سے منسوب کردیا گیا۔معروف نظم گو یو نس متین نے اپنی نظم ”قاضی عبدالرحمٰن روڈ“میںاس پیاری شخصیت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:
شعور ِ انسانیت کی صبح ِ اذاں کی سطوت
میں سیر کرتا اسی سڑک پر رواں دواں ہوں
کہ جس سے پیہم
وہ اک مرد قلندر مزاج،روشن صفات تھا منحرف
مگر جب۔۔۔۔۔
وہ سانس کی ڈور سے کٹا تو
مرے زمانے نے اس سڑک کو اُسی سے منسوب کر دیا ہے
عارف والا ایک چھوٹا ساشہر ہے،وہاں کے مکینوں نے یہاں پیوند خاک ہونےوالی اہم شخصیت سے سڑک کو منسوب کرکے حق بہ حق دار رسید کا اہتمام کیا ،افسوس کہ آج تک اسلام آباد میں کوئی عمارت ،سڑک یا پارک ایسا نہ بن سکا جسے اس شہر کا نام رکھنے والے حافظ عبدالرحمن مرحوم سے منسوب کیا جاسکتا۔