ترکی میں زلزلے کے 66 گھنٹے بعد ایک دو تین سال کی عمر کے بچے کو زندہ حالت میں نکال لیا گیا۔ اس کی وڈیو آئی ہے۔ بچہ چپ ہے لیکن خوف اس کے چہرے پر ٹھہر گیا ہے۔
66 گھنٹے۔ اندازہ کرنے کی کوشش کر لیں لیکن نہیں کر سکیں گے کہ یہ تین دن اور تین راتیں اس ننھی سی جان نے کیسے گزاری ہوں گی۔ مکمل تنہائی، ملبے کی قبر، بھوک اور پیاس۔ وہ کتنے گھنٹے رویا ہو گا، کتنے گھنٹے سسکیاں لی ہوں گی اور کتنے گھنٹے بعد اس نے چپ سادھ لی ہو گی، انتظار کے 66 کربناک گھنٹے۔ ایک اور اتنی ہی عمر کا بچہ جب نکالا گیا تو وہ خوشی سے چہک اٹھا۔ انسانی نفسیات کے ’’ڈی این اے‘‘ بھی کس قدر مختلف اور الگ الگ ہوں گے۔
ایسی ان گنت وڈیوز ہیں، ایک خاندان کے تو /24 افراد مارے گئے۔ یہ سب ہر زلزلے میں ہوتا ہو گا۔ کتنے ہی ننّھے بچے بچا لیے جاتے ہوں گے، کتنے ہی مر جاتے ہوں گے لیکن سب لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہ جاتا تھا۔ اس لیے کہ تب یہ موبائل فون کے کیمرے والی ٹیکنالوجی نہیں تھی۔ انسانی زندگی اس سیارے پر شروع سے ہی دکھی ہے لیکن دوسروں کے دکھ پہلے اس طرح سب کے سامنے نہیں آتے تھے۔ شاید یہ بھی قیامت کی ایک نشانی ہو۔
ترکی کا کرد علاقہ غریب ہے۔ یہاں عمارتیں زلزلے کا ذرا بھی مقابلہ نہیں کر سکتیں جیسا کہ ہم نے دیکھا۔ ترکی میں قوم پرستی ہر ترک جماعت کا شعار رہی ہے یہاں تک کہ طیّب اردگان کی اسلامسٹ پارٹی بھی محفوظ نہیں۔ حکومت کسی کی بھی ہو، کرد علاقوں کو پسماندہ رکھنا ہر ایک کی ترجیح بلکہ تمنا رہی ہے۔
_____________
ترکی کے زلزلے کے حوالے سے ایک ڈچ ماہر کی پیش گوئی بہت مشہور ہوئی کہ جو اس نے تین دن پہلے کی اور تین دن بعد زلزلہ آ گیا۔ لوگ حیران ہیں کہ زلزلے کی اتنی ٹھیک ٹھیک پیش گوئی کیسے ممکن ہو گئی۔
لیکن پیش گوئی پڑھ لیں۔ یہ ٹھیک ٹھیک پیش گوئی نہیں ہے، بس اتفاق سے موصوف کا ہوائی تیر نشانے پر جا بیٹھا۔ ڈچ سائنس دان فرینک ھوگر نے کہا تھا، اناطولیہ میں جلد یا بدیر، کوئی نہ کوئی بڑا زلزلہ آ سکتا ہے اس نے Sooner or Later کے واضح الفاظ استعمال کئے اور جغرافیائی نقشہ بتاتا ہے کہ اس زلزلے کی لپیٹ میں اسرائیل اردن شام بھی آئیں گے۔
جلد یا بدیر۔ زلزلہ تو آ سکتا ہے۔ یہ ہے پیش گوئی اور اناطولیہ کا جزیرہ نما جو ترکی کا 90 فیصد بنتا ہے، ہمیشہ سے بڑے زلزلوں کی سرزمین رہی ہے۔ کوئی بھی چاہے تو آج ایک نئی پیش گوئی کر سکتا ہے کہ اناطولیہ میں ایک اور زلزلہ آئے گا۔
بہرحال، اندازے کے حساب سے اسرائیل اور اردن میں تو کوئی زلزلہ نہیں آیا اور شام میں بھی جزوی یعنی کردوں کی پٹی میں!
_____________
ایک عجیب ماجرا اور بھی ہوا۔ زلزلہ سے چند دن پہلے ترکی میں ایک بہت ہی عجیب و غریب ، ناقابل یقین قسم کا بادل کا ٹکڑا دیکھا گیا۔ یہ بادل اچانک نمودار ہوا اور لوگ اسے دیکھ کر زیادہ تر ’’اللہ اکبر‘‘ اور کچھ کلمہ شہادت پڑھنے لگے، بعض نے اسے قیامت کی نشانی قرار دیا۔ یہ بادل اچانک نمودار ہوا، کسی نے اسے کسی طرف سے آتے ہوئے نہیں دیکھا، بس اپنی جگہ ایک دم ظاہر ہوا۔
اب کہا جا رہا ہے کہ زلزلہ اسی بادل کی کارستانی ہے، لیکن یہ بادل زلزلہ والے علاقے سے بہت دور، شمال مغرب کے ترک شہر برسہ میں دیکھا گیا۔ ایسے ہی جیسے یہ بادل کراچی میں دکھے اور زلزلہ سیاچن کے علاقے میں آ جائے۔
ترکی میں اسی طرح کا بادل پہلی بار دیکھا گیا لیکن صنعتی ممالک میں اس طرح کے مافوق الفہم بادل لگ بھگ عشرے ڈیڑھ عشرے سے دیکھے جا رہے ہیں۔ محل نما، قلعہ نما، کچھ تو ایسے کہ ٹیلے ہی ٹیلے آسمان پر بکھرے ہیں اور ان سے بڑے بڑے کالے پھل لٹکے ہوئے ہیں۔ کوئی ایسا کہ میلوں میل لمبی تیل پائپ لائن آسمان پر بچھ گئی ہے۔ شروع شروع میں وہاں بھی غل مچا کہ ایلینز Aliens آ گئے ہیں یا قیامت کی نشانی ہے لیکن یہ سب قدرت کے نظام میں انسانوں کی غیر انسانی مداخلت کا نتیجہ ہیں۔ کاربن کی آلودگی، موسم کا گرمالی جنگلات کا کٹائو۔ ہر شے نے فطرت کا توازن خراب کر ڈالا ہے۔ بادل بننے کا عمل ہوا کے غیر ہموار پہاڑ فلکچوئشنFluctuationi نے بدل ڈالا ہے۔ بادلوں میں بھی بھنور بننے لگے ہیں۔
بعض کا خیال ہے امریکہ نے ہارپ ٹیکنالوجی استعمال کی۔ یہ تھیوری ہمارے ہاں بھی کچھ برس پہلے کے سیلاب کے حوالے سے دی گئی تھی۔ فی الحال ایسی کوئی ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ گپ بازی ہے۔ قدرت کا ماحول ہم نے تباہ کیا ہے، اس کی سزا تو ملنی ہے۔
_____________
وزیر اعظم شہباز شریف نے کابینہ میں مزید پانچ رتنوں کا اضافہ کیا ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ نو رتنوں والے اکبر بادشاہ کی جگہ سو رتنوں والے شہباز بادشاہ کا ذکر تاریخ میں ہو گا۔ ایک اخبار نے تو یہ سرخی بھی جما دی کہ کابینہ سنچری پوری کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم شہباز اور کچھ بھی نہیں کرتے، بس ہر دوسرے تیسرے دن ایک آدھ وزیر مشیر کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ اس بیان میں دو غلطیاں ہیں۔ ایک تو یہی ایک آدھ وزیر والی، حالانکہ اس بار انہوں نے اکٹھے پانچ کا اضافہ کیا ہے اور دوسری غلطی یہ کہ اور کچھ نہیں کرتے، حالانکہ وہ کرتے ہیں۔ مثلاً ہوائی جہاز کے سفر میں فائل منگواتے ہیں، اس کا مطالعہ کرتے اور فوٹو کھنچواتے ہیں۔
کھچ میری فوٹو تے بٹوے وچہ لا دے
بٹوے سے مراد یہاں میڈیا ہے۔ جب کیمرے والا فوٹو ’’کھچ‘‘ لیتا ہے تو فائل واپس دراز میں رکھ دی جاتی ہے تاکہ اگلے سفر میں پھر کام آ سکے۔ چنانچہ یہ کہنے والوں کا یہ کہنا کہ اور کچھ نہیں کرتے، صریح بددیانتی ہے۔
_____________
صاف لگ رہا ہے کہ الیکشن تبھی ہوں گے جب الیکشن کرانے والے کرانا چاہیں گے، اس سے پہلے کوئی صورت نہیں ہے اور وجہ اس کی سیاسی نہیں اقتصادی ہے لیکن عمران کی ضد الیکشن کرائو، ابھی کرائو کی بدستور جاری ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟۔خود ان کی پارٹی والے اعتراف کر رہے ہیں کہ ہماری مقبولیت میں بتدریج کمی آ رہی ہے اور ماشاء اللہ اب تک یہ کمی اچھی خاصی ہو گئی ہے۔ ہم الیکشن جیت لیں گے؟۔ بڑی مشکل ہے۔
پھر الیکشن پر اتنا اصرار کیوں؟۔ بعض ’’شرپسند‘‘ ذرائع کا کہنا ہے کہ خان صاحب دراصل انتخابات کا بائیکاٹ کرنا چاہتے ہیں اور بائیکاٹ تبھی ہو گا جب الیکشن کی تاریخ آئے گی۔ یہ تاریخ اگر نہیں آئے گی تو بائیکاٹ کیسے ہو گا۔ کچھ کچھ ملتی جلتی بات لاٹھی چارج کی ایک رات پی ٹی آئی کے ایک نوجوان انقلابی نے کی تھی، یہ کہ پولیس ہمیں لاٹھیاں مارے گی تو ہم انقلاب کیسے لائیں گے؟۔
شرپسند ذرائع کے مطابق خان صاحب ’’جانبدار‘‘ الیکشن کمشن اور فاشسٹ نگران حکومت کو بہانہ بنا کر بائیکاٹ کریں گے۔ لیکن کیوں؟۔ اس کا جواب بھی شرپسند ذرائع نے دیا ہے۔ یہ کہ خان صاحب ملک میں مطلوبہ ’’استحکام‘‘ پیدا کرنے چاہتے ہیں۔ پچھلے دس ماہ میں انہوں نے خاصا ’’استحکام‘‘ پیدا کیا ہے لیکن جتنا چاہیے، اس سے اب بھی کم ہے۔ اس لیے…
_____________