سیّد ارتقاء احمد زیدی
ارتقاء نامہ…irtiqa.z@gmail.com
یہ 1989ء کی برسات کا واقعہ ہے جولائی کا آخری ہفتہ تھا۔ اسلام آباد میں تقریباً ہر دوسرے دن رات کو بارش ہو جاتی تھی اور دن میں دھوپ نکل آتی تھی۔ بے نظیر کی حکومت تھی ۔ گاہے بگاہے پیپلز پارٹی جلسے کرتی رہتی تھی۔ اسلام آباد میں حکومت نے ڈی چوک پر جلسہ کرنے کا پروگرام بنایا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق برسات کے موسم کے باوجود دو دن تک بارش کا کوئی امکان نہیں تھا۔ ٹی وی ڈراموں کی اداکارہ شہناز شیخ دو ٹی وی ڈراموں ’اَن کہی‘ اور ’تنہائیاں‘ کی وجہ سے اپنی شہرت کے عروج پر تھی، اس جلسہ کی سٹیج سیکریٹری تھی۔ خالد احمد کھرل وزیر اطلاعات ، صدارت کررہے تھے۔ جونہی کھرل صاحب جلسہ کے سٹیج پر پہنچے۔شہناز شیخ نے ان کی آمد کا اعلان کرنے کے بعد کہا۔ آپ سب لوگ تسلی سے بیٹھیں ابھی تھوڑی دیر میں جلسہ کا آغاز ہوگااور اس بات کا خدشہ دل سے نکال دیں کہ بارش نہ ہو جائے۔ بارش کا دُور دُور تک کوئی امکان نہیں۔ دیکھیں آسمان بالکل صاف ہے اور وہ جو تھوڑے سے بادل دُور نظر آرہے ہیں، کھرل صاحب نے انہیں وہیں باندھ دیا ہے۔
جلسہ کا آغاز ہوا ور حسب دستور مہمانِ خصوصی خالد کھرل صاحب سے پہلے کچھ دوسرے مقررین نے تقریریں شروع کی۔ ابھی پندرہ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ لوگوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ میں ڈی چوک کے قریب ہی F-6/4 سیکٹر میں رہتا تھا۔ صرف 5 منٹ کی پیدل مسافت تھی۔ مجھے عام طور پر سیاسی جلسوں میں شرکت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔اُس دن اتفاق سے واک کرتا ہوا جلسہ میں پہنچ گیا۔ سوچا کھرل صاحب کی تقریر سنوں۔ کھرل صاحب عام سیاستدانوں کے مقابلے میں بہت مختلف تھے۔ بہت سلجھے ہوئے اور قابل شخص تھے۔ انہوں نے اپنے کیئریر بحیثیت سول سرونٹ شروع کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دوست تھے اور ان کی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں کھرل صاحب کمشنر لاڑکانہ تھے۔ بعد میں وہ سول سروس چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ چنانچہ اس رات کھرل صاحب کی تقریر سننے کے شوق میں ، میںنے بھی حیرت انگیز منظر خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ دُور بادلوں کے جس ٹکڑے کی طرف اشارہ کرکے شہناز شیخ نے کہا تھا کہ کھرل صاحب نے بادلوں کو باندھ دیا ہے۔ وہ بادلوں کا ٹکڑا تیزی سے ڈی چوک کی طرف بڑھ رہا تھا۔ چند منٹوں میں ہی عین ڈی چوک کے اُوپر آکر اس بادل کے ٹکڑے نے موسلہ دھار بارش برسا دی اور پورا جلسہ درہم برہم ہوگیا۔ قریب میں کوئی پناہ لینے کی جگہ بھی نہیں تھی۔ اس لئے لوگ بھیگتے ہوئے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔ دس منٹ بارش برسا کر بادل جہاں سے آئے تھے وہیںچلے گئے۔ میں بھیگتا ہوا جب اپنے گھر پہنچا تو حیران ہوگیا کہ ڈی چوک کے علاوہ تمام جگہیں خشک پڑی تھیں۔ یعنی بارش صرف ڈی چوک میں جلسہ گاہ کے اُوپر ہی برسی تھی۔ کئی دن تک اس واقعہ کا چرچہ ہوتا رہا۔ جلسے کے منتظمین بھی حیران تھے۔ محکمہ موسمیات کی پیشن گوئی کے مطابق بارش کا اس رات کوئی امکان نہیں تھا ا ور حیرت کی بات یہ تھی کہ بادل صرف ڈی چوک میں دس منٹ بارش برسا کر واپس چلے گئے۔ آس پاس کے سب علاقے بالکل خشک رہے۔ سنا ہے کہ خالد کھرل صاحب نے شہناز شیخ کی لرزنش بھی کی تھی جب اس نے یہ فقرہ بولا تھا کہ کھرل صاحب نے بادلوں کو باندھ دیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد شہناز شیخ کی شہرت کا سورج بھی غروب ہوگیا۔