تابندہ خالد
خواتین کو خوش کرکے ان کی توجہ حاصل کرنا وہ فن ہے کہ جو ہر مرد کے پاس نہیں ہوتا اور یہ سب کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح انہیں وہ ٹپس معلوم ہوجائیں جنہیں سن کر خواتین کا دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ مشاہدے میں ہے کہ جب سے سوشل میڈیا کی رنگینی شیطان کی آنت کی مانند بڑھ گئی ہے، اس کے سحر میں تقریباً تمام مرد و زن کھچے چلے آ رہے ہیں۔ جیسے پروانے شمع کی جانب جوق در جوق آتے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا پوسٹس پر آئے روز کومنٹس اور میسجز کا لا متناہی سلسلہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ چاہے آپ کسی کو جانتے نہ ہوں وہ بھی آپ کی پرائیویٹ باتوں میں ٹانگ اڑاتا نظر آتا ہے۔خواتین کی پوسٹ پر کچھ ذیادہ ہی کومنٹس ہوتے ہیں۔ کچھ مرد حضرات ایسے الفاظ کے چناؤ سے خواتین کو متوجہ کرتے ہیں۔ ’’ واہ کمال ہو گیا آپ میری زندگی کی پہلی خاتون ہیں جس سے مل کر ایسا محسوس ہوا کہ واقعی کسی ٹپیکل مشرقی لڑکی سے ملا ہوں۔" یہ جملہ کہنے والے مرد اگرچہ درجنوں خواتین کے ساتھ عشق پیچا لڑا رہے ہوں مگر یہ کہنا ہمیشہ ان کی نئی محبوبہ کو ایکدم مسرور کردیتا ہے۔ 10 منٹ نہیں گزرتے ملاقات کو۔۔۔اور ایسا کہتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ’’مجھے کبھی کسی کی کمپنی میں ایسا لطف نہیں ملا.‘‘ یہ وہ متاثر کن جملہ ہے جس کے سننے کے بعد خواتین اپنے آپ کو مہان در مہان تصور کرتی ہیں۔ بعض مرد بڑے نفسیات شناس ہوتے ہیں۔ دھیمے مزاج کی لڑکیوں پر بیدار مغزی کا ایسا تیر کستے ہوئے فرماتے ہیں ’’تم نیٹ اینڈ کلین پالشڈ ہونے کے ساتھ ساتھ تہذیب و ثقافت سے لت پت ہو۔ میرا تجربہ کہتا ہے کہ تم دنیا کی بہترین امی ثابت ہوگی.‘‘ کچھ بھائی لوگ حساس خواتین کو یوں متوجہ کرتے ہیں۔ ’’پلیز مجھے تنہا نہ چھوڑنا میں اندر سے ایک ٹوٹا ہوا انسان ہوں۔۔۔چھوڑو گی تو مانند ریت کے بکھر جاؤں گا.‘‘ یہ جملہ خواتین کو احساس تحفظ دلاتا ہے کہ بندہ تو یقینی طور پر بگھوڑا نہیں ہو سکتا، لہذا اس مرد کی نیت میں فتور کا کوئی چانس نہیں ہے۔ لیں جی کچھ مرد حضرات نہلے پہ دھلہ کرتے ہوئے’’ او مائی گڈ لک کہ مجھے تمہارے جیسی محبوبہ ملی ، خوش بختی ہے میری۔۔۔ کسی خاتون کو اہمیت کا احساس دلانے کے لئے اس سے اچھا جملہ نہیں ہوسکتاکیونکہ یہ سن کر خاتون اپنے آپ کو دوسری خواتین سے افضل سمجھتی ہے اب باری ہے نعرہ مستانہ یعنی ’’آئی لو یو‘‘کی۔قارئین یہ وہ جملہ ہے جو ہر روز اربوں مرد اربوں خواتین کو کہتے ہیں مگر اس کی اہمیت کسی صورت کم ہونے میں نہیں آرہی اور اگرچہ سب کو معلوم ہے کہ یہ اب ایک روایتی جملہ بن چکا ہے مگر کسی بھی خاتون کو یہ جملہ سننے سے جو خوشی محسوس ہوتی ہے اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔
کچھ مرد حضرات اپنی بیگم سے بیزار ہوتے ہوئے اس طرح سے بھڑاس نکالتے ہیں۔میری بیوی نے کبھی مجھے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔تم سے تھوڑی چیٹ یا بات کرلیتا ہوں تو سکون مل جاتا ہے. گھر پہ بس سڑا ہوا منہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔کاش محترمہ تم مجھے پہلے ملی ہوتیں۔جتنا تم میرا خیال رکھتی ہو۔میری فکر کرتی ہو۔کاش میری بیوی بھی اتنا ہی خیال رکھتی تو میری زندگی جنت ناں ہوتی۔۔۔تمہاری آواز کتنی میٹھی اور پیاری ہے۔انسان سن کر ہی فریش ہوجائے۔ گھر میں بس ہر وقت چیخ و پکار ہی مچی رہتی ہے۔تم کتنی خوش مزاج ہو۔ میری بیوی تو حد درجہ سنجیدہ بلکہ سڑیل ہے
تم کتنی سنجیدہ مزاج اور میچیور ہو۔کتنی نظریاتی، اپنی سوچ رکھنے والی۔ میری بیوی کو تو کسی چیز کا کھکھ پتا نہیں۔تمہارا شاعری و موسیقی کا ذوق کتنا عمدہ ہے۔میری بیوی تو ہر وقت بیکار ٹی وی سیریل دیکھتی رہتی ہے۔ڈرامے کے منفی کردار کو سوچ کر شام کو میری درگت بناتی ہے۔ بعض جضرات تو ڈیجیٹل باتیں بھی کرتے ہیں۔۔۔ آج کیا پہنا؟ ذرا تصویر بھیجنا۔ ارے واہ یہ رنگ تو بنا ہی تمہارے لیے ہے۔بیوٹی و ذہانت کا حسین امتزاج۔
بس بچوں کی وجہ سے گزارا کررہا ہوں ورنہ میری اس عورت سے بالکل بھی ذہنی ہم آہنگی نہیں ہے۔
مندرجہ بالا جملوں کے استعمال سے دوسرے کو شیشہ میں اتارا جا سکتا ہے لیکن اس کا نقصان اس کے فوائد سے بڑھ کر ہے کیونکہ جب بندے کا اسٹیٹس افشاں ہوتا ہے اس سے عائلی چپقلش کا باب شروع ہو جاتا ہے گھر والی ،باہر والی کی توں توں میں میں سے معاشرتی حسن کو گرہن لگنے لگتا ہے۔بلاشبہ فطرتاً مر و عورت ایک دوسرے کی جانب میلان رکھتے ہیں لیکن دھوکہ دہی کی گنجائش کسی بھی پہلو میں پنہاں نہیں ہونی چاہیے